صحیح بخاری

اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا

(باب: (۔۔۔

حد یث نمبر - 7268

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مِسْعَرٍ وَغَيْرِهِ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ لِعُمَرَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوْ أَنَّ عَلَيْنَا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: ‏‏‏‏الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا‏‏‏‏ لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا. فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي لأَعْلَمُ أَيَّ يَوْمٍ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ، نَزَلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ. سَمِعَ سُفْيَانُ مِنْ مِسْعَرٍ وَمِسْعَرٌ قَيْسًا وَقَيْسٌ طَارِقًا.

ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے مسعر بن کدام اور ان کے علاوہ (سفیان ثوری) نے، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق بن شہاب نے بیان کیا کہ ایک یہودی (کعب احبار اسلام لانے سے پہلے) نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیرالمؤمنین! اگر ہمارے یہاں سورۃ المائدہ کی یہ آیت نازل ہوتی «اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا‏» کہ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کر لیا۔ تو ہم اس دن کو عید (خوشی) کا دن بنا لیتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی، عرفہ کے دن نازل ہوئی اور جمعہ کا دن تھا۔ امام بخاری نے کہا یہ روایت سفیان نے مسعر سے سنی، مسعر نے قیس سے سنا اور قیس نے طارق سے۔

(باب: (۔۔۔

حد یث نمبر - 7269

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ الْغَدَ حِينَ بَايَعَ الْمُسْلِمُونَ أَبَا بَكْرٍ وَاسْتَوَى عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشَهَّدَ قَبْلَ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "أَمَّا بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏فَاخْتَارَ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي عِنْدَهُ عَلَى الَّذِي عِنْدَكُمْ وَهَذَا الْكِتَابُ الَّذِي هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَخُذُوا بِهِ تَهْتَدُوا وَإِنَّمَا هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَهُ".

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل بن خالد نے، ان سے ابن شہاب نے اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے وہ خطبہ سنا جو انہوں نے وفات نبوی کے دوسرے دن پڑھا تھا، جس دن مسلمانوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیعت کی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر چڑھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پہلے خطبہ پڑھا پھر کہا: امابعد! اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے لیے وہ چیز (آخرت) پسند کی جو اس کے پاس تھی اس کے بجائے جو تمہارے پاس تھی یعنی دنیا اور یہ کتاب اللہ موجود ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رسول کو دین و سیدھا راستہ بتلایا پس اسے تم تھامے رہو تو ہدایت یاب رہو گے۔ یعنی اس راستے پر رہو گے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو بتلایا تھا۔

(باب: (۔۔۔

حد یث نمبر - 7270

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "ضَمَّنِي إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا اے اللہ! اسے قرآن کا علم سکھا۔

(باب: (۔۔۔

حد یث نمبر - 7271

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَبَّاحٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَوْفًا ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا الْمِنْهَالِ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بَرْزَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ يُغْنِيكُمْ أَوْ نَغَشَكُمْ بِالْإِسْلَامِ وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ وَقَعَ هَاهُنَا يُغْنِيكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا هُوَ نَعَشَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏يُنْظَرُ فِي أَصْلِ كِتَابِ الِاعْتِصَامِ.

ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عوف اعرابی سے سنا  ’  ان سے ابوالمنہال نے بیان کیا، انہوں نے ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ غنی کر دیا ہے یا بلند درجہ کر دیا ہے۔

(باب: (۔۔۔

حد یث نمبر - 7272

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَتَبَ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يُبَايِعُهُ:‏‏‏‏ وَأُقِرُّ لَكَ بِذَلِكَ بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ عَلَى سُنَّةِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ فِيمَا اسْتَطَعْتُ".

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عبدالملک بن مروان کو خط لکھا کہ وہ اس کی بیعت قبول کرتے ہیں اور یہ لکھا کہ میں تیرا حکم سنوں گا اور مانوں گا بشرطیکہ اللہ کی شریعت اور اس کے رسول کی سنت کے موافق ہو جہاں تک مجھ سے ممکن ہو گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ «جوامع الكلم» کے ساتھ بھیجا گیا ہوں

حد یث نمبر - 7273

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏فَوُضِعَتْ فِي يَدِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:‏‏‏‏ فَقَدْ ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمْ تَلْغَثُونَهَا أَوْ تَرْغَثُونَهَا أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا".

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے «جوامع الكلم» (مختصر الفاظ میں بہت سے معانی کو سمو دینا) کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور میری مدد رعب کے ذریعہ کی گئی اور میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے پاس زمین کے خزانوں کی کنجیاں رکھ دی گئیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو چلے گئے اور تم مزے کر رہے ہو یا اسی جیسا کوئی کلمہ کہا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ «جوامع الكلم» کے ساتھ بھیجا گیا ہوں

حد یث نمبر - 7274

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مِنَ الْآيَاتِ مَا مِثْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏أُومِنَ أَوْ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْجُو أَنِّي أَكْثَرُهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ".

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں (یعنی معجزات) نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا سورة الفرقان آية 74 قَالَ أَيِمَّةً نَقْتَدِي بِمَنْ قَبْلَنَا وَيَقْتَدِي بِنَا مَنْ بَعْدَنَا وَقَالَ ابْنُ عَوْنٍ ثَلَاثٌ أُحِبُّهُنَّ لِنَفْسِي وَلِإِخْوَانِي هَذِهِ السُّنَّةُ أَنْ يَتَعَلَّمُوهَا وَيَسْأَلُوا عَنْهَا وَالْقُرْآنُ أَنْ يَتَفَهَّمُوهُ وَيَسْأَلُوا عَنْهُ وَيَدَعُوا النَّاسَ إِلَّا مِنْ خَيْرٍ

اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفرقان میں) فرمانا «واجعلنا للمتقين إماما‏» کہ اے پروردگار! ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے۔ مجاہد نے کہا یعنی امام بنا دے کہ ہم لوگ اگلے لوگوں صحابہ اور تابعین کی پیروی کریں اور ہمارے بعد جو لوگ آئیں وہ ہماری پیروی کریں اور عبداللہ بن عون نے کہا تین باتیں ایسی ہیں جن کو میں خاص اپنے لیے اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے پسند کرتا ہوں، ایک تو علم حدیث، مسلمانوں کو اسے ضرور حاصل کرنا چاہئے۔ دوسرے قرآن مجید، اسے سمجھ کر پڑھیں اور لوگوں سے قرآن کے مطالب کی تحقیق کرتے رہیں۔ تیسرے یہ کہ مسلمانوں کا ذکر ہمیشہ خیر و بھلائی کے ساتھ کیا کریں، کسی کی برائی کا ذکر نہ کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7275

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ وَاصِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَلَسْتُ إِلَى شَيْبَةَفِي هَذَا الْمَسْجِدِ قَالَ:‏‏‏‏ جَلَسَ إِلَيَّ عُمَرُ فِي مَجْلِسِكَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أَدَعَ فِيهَا صَفْرَاءَ وَلَا بَيْضَاءَ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا قَسَمْتُهَا بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ مَا أَنْتَ بِفَاعِل، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لِمَ قُلْتُ لَمْ يَفْعَلْهُ صَاحِبَاكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هُمَا الْمَرْءَانِ يُقْتَدَى بِهِمَا".

ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، ان سے واصل نے، ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ اس مسجد (خانہ کعبہ) میں، میں شیبہ بن عثمان حجبی (جو کعبہ کے کلیدبردار تھے) کے پاس بیٹھا تو انہوں نے کہا کہ جہاں تم بیٹھے ہو، وہیں عمر رضی اللہ عنہ بھی میرے پاس بیٹھے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ میرا ارادہ ہے کہ کعبہ میں کسی طرح کا سونا چاندی نہ چھوڑوں اور سب مسلمانوں میں تقسیم کر دوں جو نذر اللہ کعبہ میں جمع ہے۔ میں نے کہا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ کہاں کیوں؟ میں نے کہا کہ آپ کے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ وہ دونوں بزرگ ایسے ہی تھے جن کی اقتداء کرنی ہی چاہیے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7276

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ الْأَعْمَشَ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ مِنَ السَّمَاءِ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ وَنَزَلَ الْقُرْآنُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَرَءُوا الْقُرْآنَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ".

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اعمش سے پوچھا تو انہوں نے زید بن وہب سے بیان کیا کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امانت داری آسمان سے بعض لوگوں کے دلوں کی جڑوں میں اتری، (یعنی ان کی فطرت میں داخل ہے) اور قرآن مجید نازل ہوا تو انہوں نے قرآن مجید کا مطلب سمجھا اور سنت کا علم حاصل کیا تو قرآن و حدیث دونوں سے اس ایمانداری کو جو فطرتی تھی پوری قوت مل گئی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7277

حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ :‏‏‏‏ "إِنَّ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ".

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عمرو بن مرہ نے خبر دی، کہا میں نے مرۃ الہمدانی سے سنا، بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سب سے اچھی بات کتاب اللہ اور سب سے اچھا طریقہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور سب سے بری نئی بات (بدعت) پیدا کرنا ہے (دین میں) اور بلاشبہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آ کر رہے گی اور تم پروردگار سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7278

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً میں تمہارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7279

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً میں تمہارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کروں گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7280

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ يَأْبَى ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى".

ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7281

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا يَزِيدُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَوْ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "جَاءَتْ مَلَائِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِمٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ إِنَّهُ نَائِمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا، ‏‏‏‏‏‏فَاضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ إِنَّهُ نَائِمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ دَاعِيًا، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يُجِبْ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ أَوِّلُوهَا لَهُ يَفْقَهْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ إِنَّهُ نَائِمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ فَالدَّارُ الْجَنَّةُ، ‏‏‏‏‏‏وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ عَصَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ"، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ قُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْلَيْثٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ہم سے محمد بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن ہارون نے خبر دی، کہا ہم سے سلیم بن حیان نے بیان کیا اور یزید بن ہارون نے ان کی تعریف کی، کہا ہم سے سعید بن میناء نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (جبرائیل و میکائیل) اور آپ سوئے ہوئے تھے۔ ایک نے کہا کہ یہ سوئے ہوئے ہیں، دوسرے نے کہا کہ ان کی آنکھیں سو رہی ہیں لیکن ان کا دل بیدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے ان صاحب (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ایک مثال ہے پس ان کی مثال بیان کرو۔ تو ان میں سے ایک کہا کہ یہ سو رہے ہیں، دوسرے نے کہا کہ آنکھ سو رہی ہے اور دل بیدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور وہاں کھانے کی دعوت کی اور بلانے والے کو بھیجا، پس جس نے بلانے والے کی دعوت قبول کر لی وہ گھر میں داخل ہو گیا اور دستر خوان سے کھایا اور جس نے بلانے والے کی دعوت قبول نہیں کی وہ گھر میں داخل نہیں ہوا اور دستر خوان سے کھانا نہیں کھایا، پھر انہوں نے کہا کہ اس کی ان کے لیے تفسیر کر دو تاکہ یہ سمجھ جائیں۔ بعض نے کہا کہ یہ تو سوئے ہوئے ہیں لیکن بعض نے کہا کہ آنکھیں گو سو رہی ہیں لیکن دل بیدار ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ گھر تو جنت ہے اور بلانے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پس جو ان کی اطاعت کرے گا وہ اللہ کی اطاعت کرے گا اور جو ان کی نافرمانی کرے گا وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اچھے اور برے لوگوں کے درمیانی فرق کرنے والے ہیں۔ محمد بن عبادہ کے ساتھ اس حدیث کو قتیبہ بن سعید نے بھی لیث سے روایت کیا، انہوں نے خالد بن یزید مصری سے، انہوں نے سعید بن ابی ہلال سے، انہوں نے جابر سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر بیدار ہوئے، پھر یہی حدیث نقل کی اسے ترمذی نے وصل کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7282

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَمَّامٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُذَيْفَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "يَا مَعْشَرَ الْقُرَّاءِ، ‏‏‏‏‏‏اسْتَقِيمُوا فَقَدْ سَبَقْتُمْ سَبْقًا بَعِيدًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَخَذْتُمْ يَمِينًا وَشِمَالًا لَقَدْ ضَلَلْتُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا".

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیمی نے، ان سے ہمام نے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے قرآن و حدیث پڑھنے والو! تم اگر قرآن و حدیث پر نہ جمو گے، ادھر ادھر دائیں بائیں راستہ لو گے تو بھی گمراہ ہو گے بہت ہی بڑے گمراہ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7283

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُرَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَى قَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا قَوْمِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي رَأَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْعُرْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَالنَّجَاءَ فَأَطَاعَهُ طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْلَجُوا، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقُوا عَلَى مَهَلِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَنَجَوْا وَكَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَصْبَحُوا مَكَانَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَصَبَّحَهُمُ الْجَيْشُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَهْلَكَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّبَعَ مَا جِئْتُ بِهِ وَمَثَلُ مَنْ عَصَانِي وَكَذَّبَ بِمَا جِئْتُ بِهِ مِنَ الْحَقِّ".

ہم سے ابوکریب محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ان کے دادا ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اور جس دعوت کے ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اس کی مثال ایک ایسے شخص جیسی ہے جو کسی قوم کے پاس آئے اور کہے: اے قوم! میں نے ایک لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور میں ننگ دھڑنگ تم کو ڈرانے والا ہوں، پس بچاؤ کی صورت کرو تو اس قوم کے ایک گروہ نے بات مان لی اور رات کے شروع ہی میں نکل بھاگے اور حفاظت کی جگہ چلے گئے۔ اس لیے نجات پا گئے لیکن ان کی دوسری جماعت نے جھٹلایا اور اپنی جگہ ہی پر موجود رہے، پھر صبح سویرے ہی دشمن کے لشکر نے انہیں آ لیا اور انہیں مارا اور ان کو برباد کر دیا۔ تو یہ مثال ہے اس کی جو میری اطاعت کریں اور جو دعوت میں لایا ہوں اس کی پیروی کریں اور اس کی مثال ہے جو میری نافرمانی کریں اور جو حق میں لے کر آیا ہوں اسے جھٹلائیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7284

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ :‏‏‏‏ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ"، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، ‏‏‏‏‏‏فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ بُكَيْرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ عَنْ اللَّيْثِ عَنَاقًا وَهُوَ أَصَحُّ.

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا اور عرب کے کئی قبائل پھر گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کریں گے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں پس جو شخص اقرار کر لے کہ لا الہٰ الا اللہ تو میری طرف سے اس کا مال اور اس کی جان محفوظ ہے۔ البتہ کسی حق کے بدل ہو تو وہ اور بات ہے (مثلاً کسی کا مال مار لے یا کسی کا خون کرے) اب اس کے باقی اعمال کا حساب اللہ کے حوالے ہے لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، واللہ! اگر وہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے رکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے ان کے انکار پر بھی جنگ کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر جو میں نے غور کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں لڑائی کی تجویز ڈالی ہے تو میں نے جان لیا کہ وہ حق پر ہیں۔ ابوبکیر اور عبداللہ بن صالح نے لیث سے «عناقا» (کی بجائے «عقلا») کہا یعنی بکری کا بچہ اور یہی زیادہ صحیح ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7285

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ :‏‏‏‏ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ"، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، ‏‏‏‏‏‏فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ بُكَيْرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ عَنْ اللَّيْثِ عَنَاقًا وَهُوَ أَصَحُّ.

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا اور عرب کے کئی قبائل پھر گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کریں گے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں پس جو شخص اقرار کر لے کہ لا الہٰ الا اللہ تو میری طرف سے اس کا مال اور اس کی جان محفوظ ہے۔ البتہ کسی حق کے بدل ہو تو وہ اور بات ہے (مثلاً کسی کا مال مار لے یا کسی کا خون کرے) اب اس کے باقی اعمال کا حساب اللہ کے حوالے ہے لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ واللہ! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، واللہ! اگر وہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے رکیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے ان کے انکار پر بھی جنگ کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر جو میں نے غور کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں لڑائی کی تجویز ڈالی ہے تو میں نے جان لیا کہ وہ حق پر ہیں۔ ابوبکیر اور عبداللہ بن صالح نے لیث سے «عناقا» (کی بجائے «عقلا») کہا یعنی بکری کا بچہ اور یہی زیادہ صحیح ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7286

حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:‏‏‏‏ "قَدِمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ بْنِ بَدْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَ عَلَى ابْنِ أَخِيهِ الْحُرِّ بْنِ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ وَكَانَ مِنَ النَّفَرِ الَّذِينَ يُدْنِيهِمْ عُمَرُ وَكَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجْلِسِ عُمَرَ وَمُشَاوَرَتِهِ كُهُولًا كَانُوا أَوْ شُبَّانًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُيَيْنَةُ لِابْنِ أَخِيهِ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ أَخِي هَلْ لَكَ وَجْهٌ عِنْدَ هَذَا الْأَمِيرِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَسْتَأْذِنَ لِي عَلَيْهِ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَسْتَأْذِنُ لَكَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ فَاسْتَأْذَنَ لِعُيَيْنَةَ فَلَمَّا دَخَلَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَاللَّهِ مَا تُعْطِينَا الْجَزْلَ وَمَا تَحْكُمُ بَيْنَنَا بِالْعَدْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَغَضِبَ عُمَرُ حَتَّى هَمَّ بِأَنْ يَقَعَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْحُرُّ:‏‏‏‏ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ سورة الأعراف آية 199 وَإِنَّ هَذَا مِنَ الْجَاهِلِينَ فَوَاللَّهِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِينَ تَلَاهَا عَلَيْهِ وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ".

مجھ سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید ایلی نے  ’  ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عیینہ بن حذیفہ بن بدر مدینہ آئے اور اپنے بھتیجے الحر بن قیس بن حصن کے یہاں قیام کیا۔ الحر بن قیس ان لوگوں میں سے تھے جنہیں عمر رضی اللہ عنہ اپنے قریب رکھتے تھے۔ قرآن مجید کے علماء عمر رضی اللہ عنہ کے شریک مجلس و مشورہ رہتے تھے، خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ پھر عیینہ نے اپنے بھتیجے حر سے کہا: بھتیجے! کیا امیرالمؤمنین کے یہاں کچھ رسوخ حاصل ہے کہ تم میرے لیے ان کے یہاں حاضری کی اجازت لے دو؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ کے لیے اجازت مانگوں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر انہوں نے عیینہ کے لیے اجازت چاہی(اور آپ نے اجازت دی) پھر جب عیینہ مجلس میں پہنچے تو کہا کہ اے ابن خطاب، واللہ! تم ہمیں بہت زیادہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ غصہ ہو گئے، یہاں تک کہ آپ نے انہیں سزا دینے کا ارادہ کر لیا۔ اتنے میں الحر نے کہا: امیرالمؤمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا «خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاهلين‏» کہ معاف کرنے کا طریقہ اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے اعراض کرو۔ اور یہ شخص جاہلوں میں سے ہے۔ پس واللہ! عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب یہ آیت انہوں نے تلاوت کی تو آپ ٹھنڈے ہو گئے اور عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ اللہ کی کتاب پر فوراً عمل کرتے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7287

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا قَالَتْ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ عَائِشَةَ حِينَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ وَالنَّاسُ قِيَامٌ وَهِيَ قَائِمَةٌ تُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ مَا لِلنَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَشَارَتْ بِيَدِهَا نَحْوَ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ سُبْحَانَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ آيَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ بِرَأْسِهَا:‏‏‏‏ أَنْ نَعَمْ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَرَهُ إِلَّا وَقَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، ‏‏‏‏‏‏وَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُسْلِمُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ أَسْمَاءُ:‏‏‏‏ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ:‏‏‏‏ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ فَأَجَبْنَاهُ وَآمَنَّا، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ:‏‏‏‏ نَمْ صَالِحًا عَلِمْنَا أَنَّكَ مُوقِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ أَسْمَاءُ:‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ".

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے، ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گئی۔ جب سورج گرہن ہوا تھا اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے (کہ بے وقت نماز پڑھ رہے ہیں) تو انہوں نے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا: سبحان اللہ! میں نے کہا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کوئی چیز ایسی نہیں لیکن میں نے آج اس جگہ سے اسے دیکھ لیا، یہاں تک کہ جنت و دوزخ بھی اور مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم لوگ قبروں میں بھی آزمائے جاؤ گے، دجال کے فتنے کے قریب قریب پس مومن یا مسلم مجھے یقین نہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا تو وہ(قبر میں فرشتوں کے سوال پر کہے گا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس روشن نشانات لے کر آئے اور ہم نے ان کی دعوت قبول کی اور ایمان لائے۔ اس سے کہا جائے گا کہ آرام سے سو رہو، ہمیں معلوم تھا کہ تم مومن ہو اور منافق یا شک میں مبتلا مجھے یقین نہیں کہ ان میں سے کون سا لفظ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا تھا، تو وہ کہے گا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال پر کہ) مجھے معلوم نہیں، میں نے لوگوں کو جو کہتے سنا وہی میں نے بھی بک دیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7288

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "دَعُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ".

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک میں تم سے یکسو رہوں تم بھی مجھے چھوڑ دو (اور سوالات وغیرہ نہ کرو) کیونکہ تم سے پہلے کی امتیں اپنے (غیر ضروری) سوال اور انبیاء کے سامنے اختلاف کی وجہ سے تباہ ہو گئیں۔ پس جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو تم بھی اس سے پرہیز کرو اور جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو بجا لاؤ جس حد تک تم میں طاقت ہو۔

بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے

وَقَوْلُهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101.

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسی طرح بےفائدہ سختی اٹھانا اور وہ باتیں بنانا جن میں کوئی فائدہ نہیں اور اللہ نے (سورۃ المائدہ میں) فرمایا «لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم‏» مسلمانو! ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر بیان کی جائیں تو تم کو بری لگیں۔

بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 7289

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ، ‏‏‏‏‏‏فَحُرِّمَ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ".

ہم سے عبداللہ بن یزید المقری نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا مجھ سے عقیل بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے، ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق پوچھا جو حرام نہیں تھی اور اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام کر دی گئی۔

بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 7290

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَفَّانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ ، ‏‏‏‏‏‏يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا لَيَالِيَ حَتَّى اجْتَمَعَ إِلَيْهِ نَاسٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ فَقَدُوا صَوْتَهُ لَيْلَةً، ‏‏‏‏‏‏فَظَنُّوا أَنَّهُ قَدْ نَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَتَنَحْنَحُ لِيَخْرُجَ إِلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا زَالَ بِكُمُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ".

ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عفان بن مسلم نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ ابن عقبہ نے بیان کیا، کہا میں نے ابوالنضر سے سنا، انہوں نے بسر بن سعید سے بیان کیا، ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے پھر اور لوگ بھی جمع ہو گئے تو ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہیں آئی۔ لوگوں نے سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ہیں۔ اس لیے ان میں سے بعض کھنگارنے لگے تاکہ آپ باہر تشریف لائیں، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے کام سے واقف ہوں، یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز تراویح فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے۔ پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔

بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 7291

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَيْهِ الْمَسْأَلَةَ غَضِبَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ سَلُونِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ أَبِي ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ حُذَافَةُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ أَبِي ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَضَبِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".

ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن ابی بردہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ چیزوں کے متعلق پوچھا گیا جنہیں آپ نے ناپسند کیا جب لوگوں نے بہت زیادہ پوچھنا شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا: پوچھو! اس پر ایک صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا: یا رسول اللہ! میرے والد کون ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں۔ پھر دوسرا صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا میرے والد کون ہیں؟ فرمایا کہ تمہارے والد شیبہ کے مولیٰ سالم ہیں۔ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے چہرہ پر غصہ کے آثار محسوس کئے تو عرض کیا ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں آپ کو غصہ دلانے سے توبہ کرتے ہیں۔

بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 7292

حَدَّثَنَا مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِاكْتُبْ إِلَيَّ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَتَبَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ:‏‏‏‏ "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ"، ‏‏‏‏‏‏وَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّهُ كَانَ يَنْهَى عَنْ قِيلَ وَقَالَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَثْرَةِ السُّؤَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِضَاعَةِ الْمَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عُقُوقِ الْأُمَّهَاتِ، ‏‏‏‏‏‏وَوَأْدِ الْبَنَاتِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْعٍ وَهَاتِ.

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر کوفی نے بیان کیا، ان سے مغیرہ رضی اللہ عنہ کے کاتب وراد نے بیان کیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے وہ مجھے لکھئیے تو انہوں نے انہیں لکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد کہتے تھے «لا إله إلا الله،‏‏‏‏ وحده لا شريك له،‏‏‏‏ له الملك وله الحمد،‏‏‏‏ وهو على كل شىء قدير،‏‏‏‏ اللهم لا مانع لما أعطيت،‏‏‏‏ ولا معطي لما منعت،‏‏‏‏ ولا ينفع ذا الجد منك الجد» تنہا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے اور تمام تعریف اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے! اے اللہ جو تو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی نصیبہ ور کا نصیبہ تیرے مقابلہ میں اسے نفع نہیں پہنچا سکے گا اور انہیں یہ بھی لکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بےفائدہ بہت سوال کرنے سے منع کرتے تھے اور مال ضائع کرنے سے اور آپ ماؤں کی نافرمانی کرنے سے منع کرتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے اور اپنا حق محفوظ رکھنے اور دوسروں کا حق نہ دینے سے اور بےضرورت مانگنے سے منع فرماتے تھے۔

بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 7293

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنَّا عِنْدَ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ نُهِينَا عَنِ التَّكَلُّفِ".

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا , کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا , ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں تکلف اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 7294

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ . ح وحَدَّثَنِي مَحْمُودٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْالزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى الظُّهْرَ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ السَّاعَةَ وَذَكَرَ أَنَّ بَيْنَ يَدَيْهَا أُمُورًا عِظَامًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَسْأَلْ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ بِهِ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ فَأَكْثَرَ النَّاسُ الْبُكَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولَ:‏‏‏‏ سَلُونِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ مَدْخَلِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ النَّارُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ حُذَافَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ:‏‏‏‏ سَلُونِي سَلُونِي، ‏‏‏‏‏‏فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، ‏‏‏‏‏‏وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، ‏‏‏‏‏‏وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ عُمَرُ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ وَأَنَا أُصَلِّي فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے محمود نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا مجھ کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے کے بعد باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص کسی چیز کے متعلق سوال کرنا چاہے تو سوال کرے۔ آج مجھ سے جو سوال بھی کرو گے میں اس کا جواب دوں گا جب تک میں اپنی اس جگہ پر ہوں۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر لوگ بہت زیادہ رونے لگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باربار وہی فرماتے تھے کہ مجھ سے پوچھو۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر کوئی شخص کھڑا ہوا اور پوچھا، میری جگہ کہاں ہے۔ (جنت یا جہنم میں) یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ جہنم میں۔ پھر عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا میرے والد کون ہیں یا رسول اللہ؟ فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں۔ بیان کیا کہ پھر آپ مسلسل کہتے رہے کہ مجھ سے پوچھو، مجھ سے پوچھو، آخر میں عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہا: ہم اللہ سے رب کی حیثیت سے، اسلام سے دین کی حیثیت سے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے رسول کی حیثیت سے راضی و خوش ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات کہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کی ہاتھ میں میری جان ہے، ابھی مجھ پر جنت اور دوزخ اس دیوار کی چوڑائی میں میرے سامنے کی گئی تھی (یعنی ان کی تصویریں)جب میں نماز پڑھ رہا تھا، آج کی طرح میں نے خیر و شر کو نہیں دیکھا۔

بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 7295

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ "يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ أَبِي ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَبُوكَ فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏وَنَزَلَتْ:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ سورة المائدة آية 101.

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو موسیٰ بن انس نے خبر دی کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے کہا: یا نبی اللہ! میرے والد کون ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے والد فلاں ہیں۔ اور یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء‏» اے لوگو! ایسی چیزیں نہ پوچھو۔ الآیہ۔

بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 7296

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَبَّاحٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَنْ يَبْرَحَ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يَقُولُوا هَذَا اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ".

ہم سے حسن بن صباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شبابہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ورقاء نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان برابر سوال کرتا رہے گا، یہاں تک کہ سوال کرے گا کہ یہ تو اللہ ہے، ہر چیز کا پیدا کرنے والا لیکن اللہ کو کس نے پیدا کیا۔

بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 7297

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلْقَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ"وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ لَا تَسْأَلُوهُ لَا يُسْمِعُكُمْ مَا تَكْرَهُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامُوا إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏حَدِّثْنَا عَنِ الرُّوحِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ سَاعَةً يَنْظُرُ، ‏‏‏‏‏‏فَعَرَفْت أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَأَخَّرْتُ عَنْهُ حَتَّى صَعِدَ الْوَحْيُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي سورة الإسراء آية 85".

ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے، ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک شاخ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ یہودی ادھر سے گزرے تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ لیکن دوسروں نے کہا کہ ان سے نہ پوچھو۔ کہیں ایسی بات نہ سنا دیں جو تمہیں ناپسند ہے۔ آخر آپ کے پاس وہ لوگ آئے اور کہا: ابوالقاسم! روح کے بارے میں ہمیں بتائیے؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں تھوڑی دور ہٹ گیا، یہاں تک کہ وحی کا نزول پورا ہو گیا، پھر آپ نے یہ آیت«ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي‏» پڑھی اور آپ روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہئے کہ روح میرے رب کے حکم میں سے ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاموں کی پیروی کرنا

حد یث نمبر - 7298

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "اتَّخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّخَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَ مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنِّي اتَّخَذْتُ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ فَنَبَذَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي لَنْ أَلْبَسَهُ أَبَدًا، ‏‏‏‏‏‏فَنَبَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَهُمْ".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی تو دوسرے لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھینک دی اور فرمایا کہ میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا اور لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔

کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا

لِقَوْلِهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ يَأَهْلَ الْكِتَابِ لا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلا الْحَقَّ سورة النساء آية 171

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) فرمایا «يا أهل الكتاب لا تغلوا في دينكم ولا تقولوا على الله إلا الحق» کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو۔

کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا

حد یث نمبر - 7299

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تُوَاصِلُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّكَ تُوَاصِلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَنْتَهُوا عَنِ الْوِصَالِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَوَاصَلَ بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَيْنِ أَوْ لَيْلَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَأَوْا الْهِلَالَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ تَأَخَّرَ الْهِلَالُ لَزِدْتُكُمْ كَالْمُنَكِّلِ لَهُمْ".

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم صوم وصال (افطار و سحر کے بغیر کئی دن کے روزے) نہ رکھا کرو۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو صوم وصال رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم جیسا نہیں ہوں۔ میں رات گزارتا ہوں اور میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے لیکن لوگ صوم وصال سے نہیں رکے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ دو دن یا دو راتوں میں صوم وصال کیا، پھر لوگوں نے چاند دیکھ لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاند نہ نظر آتا تو میں اور وصال کرتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد انہیں سرزنش کرنا تھا۔

کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا

حد یث نمبر - 7300

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَطَبَنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى مِنْبَرٍ مِنْ آجُرٍّ وَعَلَيْهِ سَيْفٌ فِيهِ صَحِيفَةٌ مُعَلَّقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "وَاللَّهِ مَا عِنْدَنَا مِنْ كِتَابٍ يُقْرَأُ إِلَّا كِتَابُ اللَّهِ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فَنَشَرَهَا فَإِذَا فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ وَإِذَا فِيهَا الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مِنْ عَيْرٍ إِلَى كَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهِ ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَإِذَا فِيهَا مَنْ وَالَى قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا".

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں اینٹ کے بنے ہوئے منبر کر کھڑا ہو کر خطبہ دیا۔ آپ تلوار لیے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: واللہ! ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوا اس صحیفہ کے۔ پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت میں دئیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا۔ (کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دئیے جائیں) اور اس میں یہ بھی تھا کہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے۔ پس اس میں جو کوئی نئی بات (بدعت) نکالے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس سے کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول نہیں کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری (عہد یا امان) ایک ہے اس کا ذمہ دار ان میں سب سے ادنیٰ مسلمان بھی ہو سکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا، اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس کی نہ فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنی والیوں کی اجازت کے بغیر ولاء کا رشتہ قائم کیا اس پر اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اللہ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل۔

کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا

حد یث نمبر - 7301

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:‏‏‏‏ صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا تَرَخَّصَ فِيهِ وَتَنَزَّهَ عَنْهُ قَوْمٌ، ‏‏‏‏‏‏فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمِدَ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ "مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَتَنَزَّهُونَ عَنِ الشَّيْءِ أَصْنَعُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ إِنِّي أَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً".

ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا جس سے بعض لوگوں نے پرہیز کرنا اختیار کیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو ایسی چیز سے پرہیز کرتے ہیں جو میں کرتا ہوں، واللہ! میں ان سے زیادہ اللہ کے متعلق علم رکھتا ہوں اور ان سے زیادہ خشیت رکھتا ہوں۔

کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا

حد یث نمبر - 7302

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَادَ الْخَيِّرَانِ أَنْ يَهْلِكَا أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ لَمَّا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفْدُ بَنِي تَمِيمٍ أَشَارَ أَحَدُهُمَا بِالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ التَّمِيمِيِّ الْحَنْظَلِيِّ أَخِي بَنِي مُجَاشِعٍ وَأَشَارَ الْآخَرُ بِغَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا أَرَدْتَ خِلَافِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَتْ:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ إِلَى قَوْلِهِ عَظِيمٌ سورة الحجرات آية 2- 3"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ :‏‏‏‏ فَكَانَ عُمَرُ بَعْدُ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَلِكَ عَنْ أَبِيهِ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ إِذَا حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ حَدَّثَهُ كَأَخِي السِّرَارِ لَمْ يُسْمِعْهُ حَتَّى يَسْتَفْهِمَهُ.

ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن مروزی نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر نے دی، انہیں نافع بن عمر نے، ان سے ابن ابی ملکیہ نے بیان کیا کہ امت کے دو بہترین انسان قریب تھا کہ ہلاک ہو جاتے (یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی تمیم کا وفد آیا تو ان میں سے ایک صاحب (عمر رضی اللہ عنہ) نے بنی مجاشع میں سے اقرع بن حابس حنظلی رضی اللہ عنہ کو ان کا سردار بنائے جانے کا مشورہ دیا (تو انہوں نے یہ درخواست کی کہ کسی کو ہمارا سردار بنا دیجئیے) اور دوسرے صاحب (ابوبکر رضی اللہ عنہ)نے دوسرے (قعقاع بن سعید بن زرارہ) کو بنائے جانے کا مشورہ دیا۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کا مقصد صرف میری مخالفت کرنا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری نیت آپ کی مخالفت کرنا نہیں ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دونوں بزرگوں کی آواز بلند ہو گئی۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم‏» اے لوگوں! جو ایمان لے آئے ہو اپنی آواز کو بلند نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «عظيم‏» تک۔ ابن ابی ملکیہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہا کہتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے اترنے کے بعد یہ طریقہ اختیار کیا اور ابن زبیر نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے نانا کا ذکر کیا وہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ عرض کرتے تو اتنی آہستگی سے جیسے کوئی کان میں بات کرتا ہے حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بات سنائی نہ دیتی تو آپ دوبارہ پوچھتے کیا کہا۔

کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا

حد یث نمبر - 7303

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ». قَالَتْ عَائِشَةُ قُلْتُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ. فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ». فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّكُنَّ لأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ». قَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ مَا كُنْتُ لأُصِيبَ مِنْكِ خَيْرًا.

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں عائشہ نے کہا کہ میں نے جواباً عرض کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی شدت کی وجہ سے اپنی آواز لوگوں کو نہیں سنا سکیں گے اس لیے آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو شدت بکاء کی وجہ سے لوگوں کو سنا نہیں سکیں گے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیں۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلاشبہ تم یوسف پیغمبر کی ساتھ والیاں ہو؟ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ بعد میں حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں نے تم سے کبھی کچھ بھلائی نہیں دیکھی۔

کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا

حد یث نمبر - 7304

حَدَّثَنَا آدَمُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ عُوَيْمِرٌ الْعَجْلَانِيُّ إِلَىعَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَيَقْتُلُهُ أَتَقْتُلُونَهُ بِهِ ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَهُ ؟ فَكَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعَ عَاصِمٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَرِهَ الْمَسَائِلَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُوَيْمِرٌ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى الْقُرْآنَ خَلْفَ عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيكُمْ قُرْآنًا، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَا بِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏فَتَقَدَّمَا فَتَلَاعَنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ عُوَيْمِرٌ:‏‏‏‏ كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَفَارَقَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَأْمُرْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِرَاقِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَجَرَتِ السُّنَّةُ فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "انْظُرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَحْمَرَ قَصِيرًا مِثْلَ وَحَرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ كَذَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَعْيَنَ ذَا أَلْيَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى الْأَمْرِ الْمَكْرُوهِ".

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے کہا، ہم سے زہری نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عویمر عجلانی، عاصم بن عدی کے پاس آیا اور کہا اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو پائے اور اسے قتل کر دے، کیا آپ لوگ مقتول کے بدلہ میں اسے قتل کر دیں گے؟ عاصم! میرے لیے آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھ دیجئیے۔ چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لیکن آپ نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا اور معیوب جانا۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے واپس آ کر انہیں بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا ہے۔ اس پر عویمر رضی اللہ عنہ بولے کہ واللہ! میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا خیر عویمر آپ کے پاس آئے اور عاصم کے لوٹ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے، پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ دونوں آگے بڑھے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر میں اسے اب بھی اپنے پاس رکھتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جھوٹا ہوں چنانچہ اس نے فوری اپنی بیوی کو جدا کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جدا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ پھر لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائج ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھتے رہو اس کا بچہ لال لال پست قد بامنی کی طرح کا پیدا ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ عویمر ہی کا بچہ ہے۔ عویمر نے عورت پر جھوٹا طوفان باندھا اور اور اگر سانولے رنگ کا بڑی آنکھ والا بڑے بڑے چوتڑ والا پیدا ہو، جب میں سمجھوں گا کہ عویمر سچا ہے پھر اس عورت کا بچہ اس مکروہ صورت کا یعنی جس مرد سے وہ بدنام ہوئی تھی، اسی صورت کا پیدا ہوا۔

کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا

حد یث نمبر - 7305

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ أخبرني مالك بن أوس النصري، ‏‏‏‏‏‏وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي ذِكْرًا مِنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلْتُ عَلَى مَالِكٍ فَسَأَلْتُهُ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ انْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏ وَالزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏ وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلُوا، ‏‏‏‏‏‏فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَأَذِنَ لَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْعَبَّاسُ :‏‏‏‏ "يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ الظَّالِمِ اسْتَبَّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الرَّهْطُ عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ:‏‏‏‏ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اتَّئِدُوا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الرَّهْطُ:‏‏‏‏ قَدْ قَالَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ:‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ فَإِنِّي مُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ:‏‏‏‏ وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ سورة الحشر آية 6، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ وَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَعَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ حَيَاتَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكُمَا اللَّهَ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتُمَا حِينَئِذٍ وَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبَّاسٍ تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ فِيهَا كَذَا وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ فِيهَا صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ ثُمَّ جِئْتُمَانِي وَكَلِمَتُكُمَا عَلَى كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ جِئْتَنِي تَسْأَلُنِي نَصِيبَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكِ وَأَتَانِي هَذَا يَسْأَلُنِي نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلَانِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ وَبِمَا عَمِلْتُ فِيهَا مُنْذُ وَلِيتُهَا وَإِلَّا فَلَا تُكَلِّمَانِي فِيهَا فَقُلْتُمَا ادْفَعْهَا إِلَيْنَا بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَدَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِكَ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الرَّهْطُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ فَوَالَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ فَأَنَا أَكْفِيكُمَاهَا".

ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں مالک بن اوس نضری نے خبر دی کہ محمد بن جبیر بن مطعم نے مجھ سے اس سلسلہ میں ذکر کیا تھا، پھر میں مالک کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں روانہ ہوا اور عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اتنے میں ان کے دربان یرفاء آئے اور کہا کہ عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں اجازت دی جائے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ سب لوگ اندر آ گئے اور سلام کیا اور بیٹھ گئے، پھر یرفاء نے آ کر پوچھا کہ کیا علی اور عباس کو اجازت دی جائے؟ ان حضرات کو بھی اندر بلایا۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیرالمؤمنین! میرے اور ظالم کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے۔ آپس میں دونوں نے سخت کلامی کی۔ اس پر عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی جماعت نے کہا کہ امیرالمؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئیے تاکہ دونوں کو آرام حاصل ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صبر کرو میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کی اجازت سے آسمان و زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہماری میراث تقسیم نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خود اپنی ذات مراد لی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ پھر آپ علی اور عباس رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد کہا کہ پھر میں آپ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا اس مال میں سے ایک حصہ مخصوص کیا تھا جو اس نے آپ کے سوا کسی کو نہیں دیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم‏» الآیہ۔ تو یہ مال خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا، پھر واللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لوگوں کو نظر انداز کر کے اپنے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اسے اپنی ذاتی جائیداد بنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آپ لوگوں کو بھی دیا اور سب میں تقسیم کیا، یہاں تک اس میں سے یہ مال باقی رہ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر والوں کا سالانہ خرچ دیتے تھے، پھر باقی اپنے قبضے میں لے لیتے تھے اور اسے بیت المال میں رکھ کر عام مسلمانوں کے ضروریات میں خرچ کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اس کے مطابق عمل کیا۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ کو اس کا علم ہے؟ صحابہ نے کہا کہ ہاں پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے کہا، میں آپ دونوں حضرات کو بھی اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا آپ لوگوں کو اس کا علم ہے؟ انہوں نے بھی کہا کہ ہاں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے ولی ہونے کی حیثیت سے اس پر قبضہ کیا اور اس میں اسی طرح عمل کیا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ آپ دونوں حضرات بھی یہیں موجود تھے۔ آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر یہ بات کہی اور آپ لوگوں کا خیال تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس معاملے میں خطاکار ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے اور نیک اور سب سے زیادہ حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو وفات دی اور میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکرصلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں اس طرح میں نے بھی اس جائیداد کو اپنے قبضے میں دو سال تک رکھا اور اس میں اسی کے مطابق عمل کرتا رہا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، پھر آپ دونوں حضرات میرے پاس آئے اور آپ لوگوں کا معاملہ ایک ہی تھا، کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آپ (عباس رضی اللہ عنہ!) آئے اپنے بھائی کے لڑکے کی طرف سے اپنی میراث لینے اور یہ(علی رضی اللہ عنہ) اپنی بیوی کی طرف سے ان کے والد کی میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔ میں نے تم سے کہا کہ یہ جائیداد تقسیم تو نہیں ہو سکتی لیکن تم لوگ چاہو تو میں اہتمام کے طور پر آپ کو یہ جائیداد دے دوں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ لوگوں پر اللہ کا عہد اور اس کی میثاق ہے کہ اس کو اسی طرح خرچ کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور جس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور جس طرح میں نے اپنے زمانہ ولایت میں کیا اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس معاملہ میں بات نہ کریں۔ آپ دونوں حضرات نے کہا کہ اس شرط کے ساتھ ہمارے حوالہ جائیداد کر دیں۔ چنانچہ میں نے اس شرط کے ساتھ آپ کے حوالہ جائیداد کر دی تھی۔ میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے ان لوگوں کو اس شرط کے ساتھ جائیداد دی تھی۔ جماعت نے کہا کہ ہاں، پھر آپ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا میں آپ لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا میں نے جائیداد آپ لوگوں کو اس شرط کے ساتھ حوالہ کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے کہا، کیا آپ لوگ مجھ سے اس کے سوا کوئی اور فیصلہ چاہتے ہیں۔ پس اس ذات کی قسم جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، اس میں، اس کے سوا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ اگر آپ لوگ اس کا انتظام نہیں کر سکتے تو پھر میرے حوالہ کر دو میں اس کا بھی انتظام کر لوں گا۔

جو شخص بدعتی کو ٹھکانا دے ، اس کو اپنے پاس ٹھہرائے

رَوَاهُ عَلِيٌّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

اس کا بیان اس بات میں علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔

جو شخص بدعتی کو ٹھکانا دے ، اس کو اپنے پاس ٹھہرائے

حد یث نمبر - 7306

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِأَنَسٍ :‏‏‏‏ أَحَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ: نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏مَا بَيْنَ كَذَا إِلَى كَذَا لَا يُقْطَعُ شَجَرُهَا مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَاصِمٌ:‏‏‏‏ فَأَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ أَوْ آوَى مُحْدِثًا.

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو حرمت والا شہر قرار دیا ہے؟ فرمایا کہ ہاں فلاں جگہ عیر سے فلاں جگہ(ثور) تک۔ اس علاقہ کا درخت نہیں کاٹا جائے گا جس نے اس حدود میں کوئی نئی بات پیدا کی، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ عاصم نے بیان کیا کہ پھر مجھے موسیٰ بن انس نے خبر دی کہ انس رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ یا کسی نے دین میں بدعت پیدا کرنے والے کو پناہ دی۔

دین کے مسائل میں رائے پر عمل کرنے کی مذمت ، اسی طرح بےضرورت قیاس کرنے کی برائی

وَلاَ تَقْفُ‏‏‏‏ لاَ تَقُلْ ‏‏‏‏مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ‏‏‏‏.

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (سورۃ بنی اسرائیل میں) «ولا تقف‏، لا تقل، ما ليس لك به علم‏» یعنی نہ کہو وہ بات جس کا تم کو علم نہ ہو۔

دین کے مسائل میں رائے پر عمل کرنے کی مذمت ، اسی طرح بےضرورت قیاس کرنے کی برائی

حد یث نمبر - 7307

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ تَلِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَجَّ عَلَيْنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْزِعُ الْعِلْمَ بَعْدَ أَنْ أَعْطَاكُمُوهُ انْتِزَاعًا وَلَكِنْ يَنْتَزِعُهُ مِنْهُمْ مَعَ قَبْضِ الْعُلَمَاءِ بِعِلْمِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَيَبْقَى نَاسٌ جُهَّالٌ يُسْتَفْتَوْنَ، ‏‏‏‏‏‏فَيُفْتُونَ بِرَأْيِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَيُضِلُّونَ وَيَضِلُّونَ، ‏‏‏‏‏‏فَحَدَّثْتُ بِهِ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو حَجَّ بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ أُخْتِي انْطَلِقْ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ فَاسْتَثْبِتْ لِي مِنْهُ الَّذِي حَدَّثْتَنِي عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَجِئْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَحَدَّثَنِي بِهِ كَنَحْوِ مَا حَدَّثَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ فَأَخْبَرْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَعَجِبَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَقَدْ حَفِظَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو".

ہم سے سعید بن تلید نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن شریح اور ان کے علاوہ ابن لیعہ نے بیان کیا، ان سے ابوالاسود نے اور ان سے عروہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ہمیں لے کر حج کیا تو میں نے انہیں یہ کہتے سنا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ علم کو، اس کے بعد کہ تمہیں دیا ہے ایک دم سے نہیں اٹھا لے گا بلکہ اسے اس طرح ختم کرے گا کہ علماء کو ان کے علم کے ساتھ اٹھا لے گا پھر کچھ جاہل لوگ باقی رہ جائیں گے، ان سے فتویٰ پوچھا جائے گا اور وہ فتویٰ اپنی رائے کے مطابق دیں گے۔ پس وہ لوگوں کو گمراہ کریں گے اور وہ خود بھی گمراہ ہوں گے۔ پھر میں نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی۔ ان کے بعد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے دوبارہ حج کیا تو ام المؤمنین نے مجھ سے کہا کہ بھانجے عبداللہ کے پاس جاؤ اور میرے لیے اس حدیث کو سن کر خوب مضبوط کر لو جو حدیث تم نے مجھ سے ان کے واسطہ سے بیان کی تھی۔ چنانچہ میں ان کے پاس آیا اور میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے مجھ سے وہ حدیث بیان کی، اسی طرح جیسا کہ وہ پہلے مجھ سے بیان کر چکے تھے، پھر میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور انہیں اس کی خبر دی تو انہیں تعجب ہوا اور بولیں کہ واللہ عبداللہ بن عمرو نے خوب یاد رکھا۔

دین کے مسائل میں رائے پر عمل کرنے کی مذمت ، اسی طرح بےضرورت قیاس کرنے کی برائی

حد یث نمبر - 7308

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ أَبَا وَائِلٍ :‏‏‏‏ هَلْ شَهِدْتَ صِفِّينَ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ . ح وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ :‏‏‏‏ "يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏اتَّهِمُوا رَأْيَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ لَقَدْ رَأَيْتُنِي يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ وَلَوْ أَسْتَطِيعُ أَنْ أَرُدَّ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ لَرَدَدْتُهُ وَمَا وَضَعْنَا سُيُوفَنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا إِلَى أَمْرٍ يُفْظِعُنَا إِلَّا أَسْهَلْنَ بِنَا إِلَى أَمْرٍ نَعْرِفُهُ غَيْرَ هَذَا الْأَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَقَالَ أَبُو وَائِلٍ:‏‏‏‏ شَهِدْتُ صِفِّينَ وَبِئْسَتْ صِفُّون".

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوحمزہ نے خبر دی، کہا میں نے اعمش سے سنا، کہا کہ میں نے ابووائل سے پوچھا تم صفین کی لڑائی میں شریک تھے؟ کہا کہ ہاں، پھر میں نے سہل بن حنیف کو کہتے سنا (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے (جنگ صفین کے موقع پر) کہا کہ لوگوں! اپنے دین کے مقابلہ میں اپنی رائے کو بےحقیقت سمجھو میں نے اپنے آپ کو ابوجندل رضی اللہ عنہ کے واقعہ کے دن (صلح حدیبیہ کے موقع پر) دیکھا کہ اگر میرے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہٹنے کی طاقت ہوتی تو میں اس دن آپ سے انحراف کرتا (اور کفار قریش کے ساتھ ان شرائط کو قبول نہ کرتا) اور ہم نے جب کسی مہم پر اپنی تلواریں کاندھوں پر رکھیں (لڑائی شروع کی) تو ان تلواروں کی بدولت ہم کو ایک آسانی مل گئی جسے ہم پہچانتے تھے مگر اس مہم میں (یعنی جنگ صفین میں مشکل میں گرفتار ہیں دونوں طرف والے اپنے اپنے دلائل پیش کرتے ہیں) ابواعمش نے کہا کہ ابووائل نے بتایا کہ میں صفین میں موجود تھا اور صفین کی لڑائی بھی کیا بری لڑائی تھی جس میں مسلمان آپس میں کٹ مرے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مسئلہ رائے یا قیاس سے نہیں بتلایا

أَوْ لَمْ يُجِبْ حَتَّى يُنْزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، وَلَمْ يَقُلْ بِرَأْيٍ وَلاَ بِقِيَاسٍ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: ‏‏‏‏بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ‏‏‏‏.

بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی بات پوچھی جاتی جس بارے میں وحی نہ اتری ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے میں نہیں جانتا یا وحی اترنے تک خاموش رہتے کچھ جواب نہ دیتے کیونکہ اللہ پاک نے (سورۃ نساء میں) فرمایا تاکہ اللہ، جیسا تجھ کو بتلائے اس کے موافق تو حکم دے۔

 

وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّوحِ فَسَكَتَ حَتَّى نَزَلَتِ الآيَةُ.

اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے یہاں تک کہ یہ آیت اتری۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مسئلہ رائے یا قیاس سے نہیں بتلایا

حد یث نمبر - 7309

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "مَرِضْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا مَاشِيَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَانِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَبَّ وَضُوءَهُ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَفَقْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا أَجَابَنِي بِشَيْءٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ".

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا میں نے محمد بن المنکدر سے سنا، بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ عیادت کے لیے تشریف لائے۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو مجھ پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور بعض اوقات سفیان نے یہ الفاظ بیان کئے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال کے بارے میں کس طرح فیصلہ کروں، میں اپنے مال کا کیا کروں؟ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کے مردوں و عورتوں کو وہی باتیں سکھانا جو اللہ نے آپ کو سکھائی تھیں باقی رائے اور تمثیل آپ نے نہیں سکھائی

حد یث نمبر - 7310

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ ذَكْوَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏"جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ذَهَبَ الرِّجَالُ بِحَدِيثِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَاجْعَلْ لَنَا مِنْ نَفْسِكَ يَوْمًا نَأْتِيكَ فِيهِ تُعَلِّمُنَا مِمَّا عَلَّمَكَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اجْتَمِعْنَ، ‏‏‏‏‏‏فِي يَوْمِ كَذَا وَكَذَا فِي مَكَانِ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَاجْتَمَعْنَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَاهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَعَلَّمَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَهُ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مَا مِنْكُنَّ امْرَأَةٌ تُقَدِّمُ بَيْنَ يَدَيْهَا مِنْ وَلَدِهَا ثَلَاثَةً إِلَّا كَانَ لَهَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوِ اثْنَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَعَادَتْهَا مَرَّتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ وَاثْنَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَاثْنَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَاثْنَيْنِ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن الاصبہانی نے، ان سے ابوصالح ذکوان نے اور ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہ ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا: یا رسول اللہ! آپ کی تمام احادیث مرد لے گئے، ہمارے لیے بھی آپ کوئی دن اپنی طرف سے مخصوص کر دیں جس میں ہم آپ کے پاس آئیں اور آپ ہمیں وہ تعلیمات دیں جو اللہ نے آپ کو سکھائی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں فلاں دن فلاں فلاں جگہ جمع ہو جاؤ۔ چنانچہ عورتیں جمع ہوئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور انہیں اس کی تعلیم دی جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو عورت بھی اپنی زندگی میں اپنے تین بچے آگے بھیج دے گی۔ (یعنی ان کی وفات ہو جائے گی) تو وہ اس کے لیے دوزخ سے رکاوٹ بن جائیں گے۔ اس پر ان میں سے ایک خاتون نے کہا: یا رسول اللہ! دو؟ انہوں نے اس کلمہ کو دو مرتب دہرایا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں دو، دو، دو بھی یہی درجہ رکھتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد میری امت کی ایک جماعت حق پر غالب رہے گی اور جنگ کرتی رہے گی اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اس گروہ سے دین کے عالموں کا گروہ مراد ہے

حد یث نمبر - 7311

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَيْسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا يَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ".

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے، ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا (اس میں علمی و دینی غلبہ بھی داخل ہے) یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ غالب ہی رہیں گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد میری امت کی ایک جماعت حق پر غالب رہے گی اور جنگ کرتی رہے گی اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اس گروہ سے دین کے عالموں کا گروہ مراد ہے

حد یث نمبر - 7312

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي حُمَيْدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ يَخْطُبُ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَيُعْطِي اللَّهُ وَلَنْ يَزَالَ أَمْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ مُسْتَقِيمًا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ".

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے انہیں حمید نے خبر دی، کہا کہ میں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا اللہ ہے اور اس امت کا معاملہ ہمیشہ درست رہے گا، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ) یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ پہنچے۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الانعام میں ) یوں فرمانا یا وہ تمہارے کئی فرقے کر دے

حد یث نمبر - 7313

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَمْرٌو ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "لَمَّا نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ سورة الأنعام آية 65، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَعُوذُ بِوَجْهِكَ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَعُوذُ بِوَجْهِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا نَزَلَتْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ سورة الأنعام آية 65، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَاتَانِ أَهْوَنُ أَوْ أَيْسَرُ".

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی «قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقكم‏» کہ کہو کہ وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیجے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں تیرے با عظمت و بزرگ منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ «أو من تحت أرجلكم‏» یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے (عذاب بھیجے) تو اس پر پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں تیرے مبارک منہ کی پناہ مانگتا ہوں، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی «أو يلبسكم شيعا ويذيق بعضكم بأس بعض‏» کہ یا تمہیں فرقوں میں تقسیم کر دے اور تم میں سے بعض کو بعض کا خوف چکھائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دونوں آسان و سہل ہیں۔

ایک امر معلوم کو دوسرے امر واضح سے تشبیہ دینا جس کا حکم اللہ نے بیان کر دیا ہے تاکہ پوچھنے والا سمجھ جائے

حد یث نمبر - 7314

حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ وَإِنِّي أَنْكَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا أَلْوَانُهَا ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حُمْرٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَنَّى تُرَى ذَلِكَ جَاءَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عِرْقٌ نَزَعَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَلَعَلَّ هَذَا عِرْقٌ نَزَعَهُ وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُ فِي الِانْتِفَاءِ مِنْهُ".

ہم سے اصبغ بن الفرج نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میری بیوی کے یہاں لڑکا پیدا ہوا ہے جس کو میں اپنا نہیں سمجھتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہیں۔ دریافت کیا کہ ان کے رنگ کیسے ہیں؟ کہا کہ سرخ ہیں۔ پوچھا کہ ان میں کوئی خاکی بھی ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں ان میں خاکی بھی ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ پھر کس طرح تم سمجھتے ہو کہ اس رنگ کا پیدا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ممکن ہے اس بچے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بچے کے انکار کرنے کی اجازت نہیں دی۔

ایک امر معلوم کو دوسرے امر واضح سے تشبیہ دینا جس کا حکم اللہ نے بیان کر دیا ہے تاکہ پوچھنے والا سمجھ جائے

حد یث نمبر - 7315

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، ‏‏‏‏‏‏فَمَاتَتْ قَبْلَ أَنْ تَحُجَّ، ‏‏‏‏‏‏أَفَأَحُجَّ عَنْهَا ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ قَاضِيَتَهُ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اقْضُوا اللَّهَ الَّذِي لَهُ فَإِنَّ اللَّهَ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ".

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی اور وہ(ادائیگی سے پہلے ہی) وفات پا گئیں۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے حج کر لو۔ تمہارا کیا خیال ہے، اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو تم اسے پورا کرتیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس قرض کو بھی پورا کر جو اللہ تعالیٰ کا ہے کیونکہ اس قرض کا پورا کرنا زیادہ ضروری ہے۔

قاضیوں کو کوشش کر کے اللہ کی کتاب کے موافق حکم دینا چائیے

لِقَوْلِهِ: ‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ‏‏‏‏. وَمَدَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاحِبَ الْحِكْمَةِ حِينَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا، لاَ يَتَكَلَّفُ مِنْ قِبَلِهِ، وَمُشَاوَرَةِ الْخُلَفَاءِ وَسُؤَالِهِمْ أَهْلَ الْعِلْمِ.

اللہ پاک نے فرمایا «ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون» جو لوگ اللہ کے اتارے موافق فیصلہ نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم والے کی تعریف کی جو علم (قرآن و حدیث) کے موافق فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو قرآن و حدیث سکھلاتا ہے اور اپنی طرف سے کوئی بات نہیں بتاتا۔ اس بات میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ خلفاء نے اہل علم سے مشورے لیے ہیں۔

قاضیوں کو کوشش کر کے اللہ کی کتاب کے موافق حکم دینا چائیے

حد یث نمبر - 7316

حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حُمَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَيْسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ:‏‏‏‏ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏وَآخَرُ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا".

ہم سے شہاب بن عباد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن حمید نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رشک دو ہی آدمیوں پر ہو سکتا ہے، ایک وہ جیسے اللہ نے مال دیا اور اسے (مال کو) راہ حق میں لٹانے کی پوری طرح توفیق ملی ہوتی ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی ہے اور اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔

قاضیوں کو کوشش کر کے اللہ کی کتاب کے موافق حکم دینا چائیے

حد یث نمبر - 7317

حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ إِمْلَاصِ الْمَرْأَةِ هِيَ الَّتِي يُضْرَبُ بَطْنُهَا فَتُلْقِي جَنِينًا ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيُّكُمْ سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ شَيْئًا ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا هُوَ ؟، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ فِيهِ:‏‏‏‏ "غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا تَبْرَحْ حَتَّى تَجِيئَنِي بِالْمَخْرَجِ فِيمَا قُلْتَ.

ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عورت کے املاص کے متعلق (صحابہ سے) پوچھا۔ یہ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے پیٹ پر مار دیا گیا (جبکہ وہ حاملہ ہو) ہو اور اس کا ناتمام (ادھورا) بچہ گر گیا ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا آپ لوگوں میں سے کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کوئی حدیث سنی ہے؟ میں نے کہا کہ میں نے سنی ہے۔ پوچھا کیا حدیث ہے؟ میں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایسی صورت میں ایک غلام یا باندی تاوان کے طور پر ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم اب چھوٹ نہیں سکتے یہاں تک کہ تم نے جو حدیث بیان کی ہے اس سلسلے میں نجات کا کوئی ذریعہ (یعنی کوئی شہادت کہ واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث فرمائی تھی) لاؤ۔

قاضیوں کو کوشش کر کے اللہ کی کتاب کے موافق حکم دینا چائیے

حد یث نمبر - 7318

فَخَرَجْتُ فَوَجَدْتُ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏فَجِئْتُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَشَهِدَ مَعِي، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِيهِ:‏‏‏‏ غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ"، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمُغِيرَةِ .

پھر میں نکلا تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ مل گئے اور میں انہیں لایا اور انہوں نے میرے ساتھ گواہی دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ اس میں ایک غلام یا باندی کی تاوان ہے۔ ہشام بن عروہ کے ساتھ اس حدیث کو ابن ابی الزناد نے بھی اپنے باپ سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے مغیرہ سے روایت کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اے مسلمانو ! تم اگلے لوگوں کی چال پر چلو گے

حد یث نمبر - 7319

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْمَقْبُرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَأْخُذَ أُمَّتِي بِأَخْذِ الْقُرُونِ قَبْلَهَا شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏كَفَارِسَ، ‏‏‏‏‏‏وَالرُّومِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَمَنِ النَّاسُ إِلَّا أُولَئِكَ".

ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک میری امت اس طرح پچھلی امتوں کے مطابق نہیں ہو جائے گی جیسے بالشت بالشت کے اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ہوتا ہے۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! اگلی امتوں سے کون مراد ہیں، پارسی اور نصرانی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اور کون۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اے مسلمانو ! تم اگلے لوگوں کی چال پر چلو گے

حد یث نمبر - 7320

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ الصَّنْعَانِيُّ مِنْ الْيَمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏الْيَهُودُ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّصَارَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَنْ".

ہم سے محمد بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے یمن کے ابوعمر صنعانی بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے۔ ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں؟ فرمایا پھر اور کون۔

اس کا گناہ جو کسی گمراہی کی طرف بلائے یا کوئی بری رسم قائم کرے

لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ سورة النحل آية 25.

اللہ تعالیٰ کے فرمان «ومن أوزار الذين يضلونهم‏» الخ، کی روشنی میں یعنی اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النحل میں) فرمایا ان لوگوں کا بھی بوجھ اٹھائیں گے جس کو بےعلمی کی وجہ سے گمراہ کر رہے ہیں۔

اس کا گناہ جو کسی گمراہی کی طرف بلائے یا کوئی بری رسم قائم کرے

حد یث نمبر - 7321

حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَسْرُوقٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَيْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْهَا"، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ مِنْ دَمِهَا لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ أَوَّلًا.

ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا ہم سے اعمش نے، ان سے عبداللہ بن مروہ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جائے گا اس کے (گناہ کا) ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) پر بھی پڑے گا۔ بعض اوقات سفیان نے اس طرح بیان کیا کہ اس کے خون کا کیونکہ اسی نے سب سے پہلے ناحق خون کی بری رسم قائم کی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

وَمَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الْحَرَمَانِ مَكَّةُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَدِينَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا كَانَ بِهَا مِنْ مَشَاهِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُهَاجِرِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏وَمُصَلَّى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمِنْبَرِ وَالْقَبْرِ.

اور مدینہ میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین اور انصار کے متبرک مقامات ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ اور منبر اور آپ کی قبر شریف کا بیان۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7322

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ السَّلَمِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَصَابَ الْأَعْرَابِيَّ وَعْكٌ بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَقِلْنِي بَيْعَتِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا وَيَنْصَعُ طِيبُهَا".

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن منکدر سے، انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے کہ ایک گنوار (قیس بن ابی حازم یا قیس بن حازم یا اور کوئی) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی، پھر مدینہ میں اس کو تپ آنے لگی۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ کہنے لگا: یا رسول اللہ! میری بیعت توڑ دیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا۔ وہ پھر آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! میری بیعت فسخ کر دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انکار کیا۔ اس کے بعد وہ مدینہ سے نکل کر اپنے جنگل کو چلا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ لوہار کی بھٹی کی طرح ہے جو اپنی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے اور کھرے پاکیزہ مال کو رکھ لیتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7323

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنْتُ أُقْرِئُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ آخِرُ حَجَّةٍ حَجَّهَا عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ:‏‏‏‏ بِمِنًى لَوْ شَهِدْتَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَاهُ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ فُلَانًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَوْ مَاتَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ لَبَايَعْنَا فُلَانًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ لَأَقُومَنَّ الْعَشِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأُحَذِّرَ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَغْصِبُوهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ يَغْلِبُونَ عَلَى مَجْلِسِكَ فَأَخَافُ أَنْ لَا يُنْزِلُوهَا عَلَى وَجْهِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَيُطِيرُ بِهَا كُلُّ مُطِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمْهِلْ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ دَارَ الْهِجْرَةِ وَدَارَ السُّنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَخْلُصَ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَنْصَارِ فَيَحْفَظُوا مَقَالَتَكَ وَيُنْزِلُوهَا عَلَى وَجْهِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَأَقُومَنَّ بِهِ فِي أَوَّلِ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ فَكَانَ فِيمَا أُنْزِلَ آيَةُ الرَّجْمِ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر بن راشد نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ جب وہ آخری حج آیا جو عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا تو عبدالرحمٰن نے منیٰ میں مجھ سے کہا کاش تم امیرالمؤمنین کو آج دیکھتے جب ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ فلاں شخص کہتا ہے کہ اگر امیرالمؤمنین کا انتقال ہو جائے تو ہم فلاں سے بیعت کر لیں گے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آج سہ پہر کو کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ سناؤں گا اور ان کو ڈراؤں کا جو (عام مسلمانوں کے حق کو) غصب کرنا چاہتے ہیں اور خود اپنی رائے سے امیر منتخب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ ایسا نہ کریں کیونکہ موسم حج میں ہر طرح کے ناواقف اور معمولی لوگ جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کثرت سے آپ کی مجلس میں جمع ہو جائیں گے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ آپ کی بات کا صحیح مطلب نہ سمجھ کر کچھ اور معنیٰ نہ کر لیں اور اسے منہ در منہ اڑاتے پھریں۔ اس لیے ابھی توقف کیجئے۔ جب آپ مدینے پہنچیں جو دار الہجرت اور دار السنہ ہے تو وہاں آپ کے مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ، مہاجرین و انصار خالص ایسے ہی لوگ ملیں گے وہ آپ کی بات کو یاد رکھیں گے اور اس کا مطلب بھی ٹھیک بیان کریں گے۔ اس پر امیرالمؤمنین نے کہا کہ واللہ! میں مدینہ پہنچ کر جو پہلا خطبہ دوں گا اس میں اس کا بیان کروں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم مدینے آئے تو عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن دوپہر ڈھلے برآمد ہوئے اور خطبہ سنایا۔ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا اور آپ پر قرآن اتارا، اس قرآن میں رجم کی آیت بھی تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7324

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كُنَّا عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ مُمَشَّقَانِ مِنْ كَتَّانٍ، ‏‏‏‏‏‏فَتَمَخَّطَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ بَخْ بَخْ أَبُو هُرَيْرَةَ يَتَمَخَّطُ فِي الْكَتَّانِ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَإِنِّي لَأَخِرُّ فِيمَا بَيْنَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ مَغْشِيًّا عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَجِيءُ الْجَائِي فَيَضَعْ رِجْلَهُ عَلَى عُنُقِي وَيُرَى أَنِّي مَجْنُونٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا بِي مِنْ جُنُونٍ مَا بِي، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا الْجُوعُ".

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ ہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے اور ان کے جسم پر کتان کے دو کپڑے گیرو میں رنگے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان ہی کپڑوں میں ناک صاف کی اور کہا واہ واہ دیکھو ابوہریرہ کتان کے کپڑوں میں ناک صاف کرتا ہے، اب ایسا مالدار ہو گیا حالانکہ میں نے اپنے آپ کو ایک زمانہ میں ایسا پایا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے درمیان بیہوش ہو کر گڑ پڑتا تھا اور گزرنے والا میری گردن پر یہ سمجھ کر پاؤں رکھتا تھا کہ میں پاگل ہو گیا ہوں، حالانکہ مجھے جنون نہیں ہوتا تھا، بلکہ صرف بھوک کی وجہ سے میری یہ حالت ہو جاتی تھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7325

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَشَهِدْتَ الْعِيدَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْلَا مَنْزِلَتِي مِنْهُ مَا شَهِدْتُهُ مِنَ الصِّغَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى الْعَلَمَ الَّذِي عِنْدَ دَارِ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَطَبَ وَلَمْ يَذْكُرْ أَذَانًا وَلَا إِقَامَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَمَرَ بِالصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ النِّسَاءُ يُشِرْنَ إِلَى آذَانِهِنَّ وَحُلُوقِهِنَّ فَأَمَرَ بِلَالًا:‏‏‏‏ فَأَتَاهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَجَعَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے بیان کیا، کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید میں گئے ہیں؟ کہا کہ ہاں میں اس وقت کم سن تھا۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھ کو اتنا نزدیک کا رشتہ نہ ہوتا اور کم سن نہ ہوتا تو آپ کے ساتھ کبھی نہیں رہ سکتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکل کر اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے مکان کے پاس ہے اور وہاں آپ نے نماز عید پڑھائی پھر خطبہ دیا۔ انہوں نے اذان اور اقامت کا ذکر نہیں کیا، پھر آپ نے صدقہ دینے کا حکم دیا تو عورتیں اپنے کانوں اور گردنوں کی طرف ہاتھ بڑھانے لگیں زیوروں کا صدقہ دینے کے لیے، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا، وہ آئے اور صدقہ میں ملی ہوئی چیزوں کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس گئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7326

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"يَأْتِي قُبَاءً مَاشِيًا وَرَاكِبًا".

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قباء میں تشریف لاتے تھے، کبھی پیدل اور کبھی سواری پر۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7327

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ:‏‏‏‏ "ادْفِنِّي مَعَ صَوَاحِبِي وَلَا تَدْفِنِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُزَكَّى.

ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ انہوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے کہا تھا کہ مجھے انتقال کے بعد میری سوکنوں کے ساتھ دفن کرنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجرہ میں دفن مت کرنا کیونکہ میں پسند نہیں کرتی کہ میری آپ کی اور بیویوں سے زیادہ پاکی بیان کی جائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7328

وعَنْ هشام عن أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُمَرَ أَرْسَلَ إِلَى عَائِشَةَ ائْذَنِي لِي أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِي وَاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَرْسَلَ إِلَيْهَا مِنَ الصَّحَابَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ لَا أُوثِرُهُمْ بِأَحَدٍ أَبَدًا".

اور ہشام سے روایت ہے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آدمی بھیجا کہ مجھے اجازت دیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن کیا جاؤں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں اللہ کی قسم! میں ان کو اجازت دیتی ہوں۔ راوی نے بیان کیا کہ پہلے جب کوئی صحابی ان سے وہاں دفن ہونے کی اجازت مانگتے تو وہ کہلا دیتی تھیں کہ نہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے ساتھ کسی اور کو دفن نہیں ہونے دوں گی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7329

حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَابْنُ شِهَابٍ :‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"يُصَلِّي الْعَصْرَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتِي الْعَوَالِيَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ"، ‏‏‏‏‏‏وَزَادَ اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ وَبُعْدُ الْعَوَالِيَ أَرْبَعَةُ أَمْيَالٍ أَوْ ثَلَاثَةٌ.

ہم سے ایوب بن سلمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر بن اویس نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھ کر ان گاؤں میں جاتے جو مدینہ کی بلندی پر واقع ہیں وہاں پہنچ جاتے اور سورج بلند رہتا۔ عوالی مدینہ کا بھی یہی حکم ہے اور لیث نے بھی اس حدیث کو یونس سے روایت کیا، اس میں اتنا زیادہ ہے کہ یہ گاؤں مدینہ سے تین چار میل پر واقع ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7330

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْجُعَيْدِ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "كَانَ الصَّاعُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدًّا وَثُلُثًا بِمُدِّكُمُ الْيَوْمَ"، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ زِيدَ فِيهِ سَمِعَ الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْجُعَيْدَ.

ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا ہم سے قاسم بن مالک نے بیان کیا، ان سے جعید نے، انہوں نے سائب بن یزید سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صاع تمہارے وقت کی مد سے ایک مد اور ایک تہائی مد کا ہوتا تھا، پھر صاع کی مقدار بڑھ گئی یعنی عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں وہ چار مد کا ہو گیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7331

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي مِكْيَالِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَبَارِكْ لَهُمْ فِي صَاعِهِمْ وَمُدِّهِمْ"، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي:‏‏‏‏ أَهْلَ الْمَدِينَةِ.

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ان مدینہ والوں کے پیمانہ میں انہیں برکت دے اور ان کے صاع اور مد میں انہیں برکت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اہل مدینہ (کے صاع و مد) سے تھی (مدنی صاع اور مد کو بھی تاریخی عظمت حاصل ہے)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7332

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ وَامْرَأَةٍ زَنَيَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ بِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ تُوضَعُ الْجَنَائِزُ عِنْدَ الْمَسْجِدِ".

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے جنہوں نے زنا کیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے رجم کا حکم دیا اور انہیں مسجد کی ایک جگہ کے قریب رجم کیا گیا جہاں جنازے رکھے جاتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7333

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"طَلَعَ لَهُ أُحُدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا"، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ سَهْلٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُحُدٍ.

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مطلب کے مولیٰ عمرو نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ احد پہاڑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (راستے میں) دکھائی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا تھا اور میں تیرے حکم سے اس کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیانی علاقہ کو حرمت والا قرار دیتا ہوں۔ اس روایت کی متابعت سہل رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احد کے متعلق کی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7334

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَانَ"بَيْنَ جِدَارِ الْمَسْجِدِ مِمَّا يَلِي الْقِبْلَةَ وَبَيْنَ الْمِنْبَرِ مَمَرُّ الشَّاةِ".

ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل رضی اللہ عنہ نے کہمسجد نبوی کی قبلہ کی طرف دیوار اور منبر کے درمیان بکریوں کے گزرنے جتنا فاصلہ تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7335

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي".

ہم سے عمر بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مالک نے بیان کیا، ان سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے حجرہ اور میرے منبر کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا یہ منبر میرے حوض پر ہو گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7336

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "سَابَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْخَيْلِ، ‏‏‏‏‏‏فَأُرْسِلَتِ الَّتِي ضُمِّرَتْ مِنْهَا وَأَمَدُهَا إِلَى الْحَفْيَاءِ إِلَى ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ وَالَّتِي لَمْ تُضَمَّرْ أَمَدُهَا ثَنِيَّةُ الْوَدَاعِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ كَانَ فِيمَنْ سَابَقَ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کی دوڑ کرائی اور وہ گھوڑے چھوڑے گئے جو گھوڑ دوڑ کیلئے تیار کئے گئے تھے تو ان کے دوڑنے کا میدان مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک تھا اور جو تیار نہیں کئے گئے تھے ان کے دوڑنے کا میدان ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک تھا اور عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی ان لوگوں میں تھے جنہوں نے مقابلے میں حصہ لیا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7337

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ لَيْثٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ . ح وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عِيسَى ، ‏‏‏‏‏‏ وَابْنُ إِدْرِيسَ ، ‏‏‏‏‏‏ وَابْنُ أبي غنية ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "سَمِعْتُ عُمَرَ عَلَى مِنْبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے لیث نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے (دوسری سند) اور مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عیسیٰ اور ابن ادریس نے خبر دی اور ابن ابی غنیہ نے خبر دی، انہیں ابوحیان نے، انہیں شعبی نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر (خطبہ دیتے)سنا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7338

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ ، ‏‏‏‏‏‏"خَطَبَنَا عَلَى مِنْبَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سائب بن یزید نے خبر دی، انہوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے سنا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر سے ہمیں خطاب کر رہے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7339

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ هِشَامَ بْنَ عُرْوَةَ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّعَائِشَةَ قَالَتْ:‏‏‏‏ "قَدْ كَانَ يُوضَعُ لِي وَلِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْمِرْكَنُ، ‏‏‏‏‏‏فَنَشْرَعُ فِيهِ جَمِيعًا".

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ لگن رکھی جاتی تھی اور ہم دونوں اس سے ایک ساتھ نہاتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7340

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "حَالَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏وَقُرَيْشٍ فِي دَارِي الَّتِي بِالْمَدِينَةِ.

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عباد بن عباد نے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم الاحوال نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور قریش کے درمیان میرے اس گھر میں بھائی چارہ کرایا جو مدینہ منورہ میں ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7341

وَقَنَتَ شَهْرًا يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ".

اور آپ نے قبائل بنی سلیم کے لیے ایک مہینہ تک دعائے قنوت پڑھی جس میں ان کے لیے بددعا کی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7342

حَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بُرَيْدٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ انْطَلِقْ إِلَى الْمَنْزِلِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَسْقِيَكَ فِي قَدَحٍ شَرِبَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُصَلِّي فِي مَسْجِدٍ صَلَّى فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ فَسَقَانِي سَوِيقًا، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعَمَنِي تَمْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَّيْتُ فِي مَسْجِدِهِ".

ہم سے ابوکریب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے برید نے بیان کیا، کہا کہ میں مدینہ منورہ آیا اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ گھر چلو تو میں تمہیں اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا تھا اور پھر ہم اس نماز پڑھنے کی جگہ نماز پڑھیں گے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ گیا اور انہوں نے مجھے ستو پلایا اور کھجور کھلائی اور میں نے ان کے نماز پڑھنے کی جگہ نماز پڑھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7343

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَال:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتٍ مِنْ رَبِّي وَهُوَ بِالْعَقِيقِ أَنْ صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ وَقُلْ عُمْرَةٌ وَحَجَّةٌ"، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ هَارُونُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيٌّ عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ.

ہم سے سعید بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن کثیر نے، ان سے عکرمہ نے بیان کیا، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اور ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس رات ایک میرے رب کی طرف سے آنے والا آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت وادی عقیق میں تھے اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھئیے اور کہئیے کہ عمرہ اور حج (کی نیت کرتا ہوں) اور ہارون بن اسماعیل نے بیان کیا کہ ہم سے علی نے بیان کیا (ان الفاظ کے ساتھ) «عمرة في حجة‏.‏» ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7344

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَقَّتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرْنًا لِأَهْلِ نَجْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْجُحْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏لِأَهْلِ الشَّأْمِ وَذَا الْحُلَيْفَةِ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ هَذَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَبَلَغَنِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمُ وَذُكِرَ الْعِرَاقُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَمْ يَكُنْ عِرَاقٌ يَوْمَئِذٍ".

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کے لیے مقام قرن، حجفہ کو اہل شام کے لیے اور ذوالحلیفہ کو اہل مدینہ کے لیے میقات مقرر کیا۔ بیان کیا کہ میں نے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل یمن کے لیے یلملم (میقات) ہے اور عراق کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عراق نہیں تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالموں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان

حد یث نمبر - 7345

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّهُ أُرِيَ وَهُوَ فِي مُعَرَّسِهِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ إِنَّكَ بِبَطْحَاءَ مُبَارَكَةٍ".

ہم سے عبدالرحمٰن بن مبارک نے بیان کیا، کہا ہم سے فضیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے، ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کہ آپ مقام ذوالحلیفہ میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے، خواب دکھایا گیا اور کہا گیا کہ آپ ایک مبارک وادی میں ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ آل عمران میں ) فرمان اے پیغمبر ! تجھ کو اس کام میں کوئی دخل نہیں آخر آیت تک

حد یث نمبر - 7346

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَرَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ فِي الْأَخِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ سورة آل عمران آية 128.

ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز میں یہ دعا رکوع سے سر اٹھانے کے بعد پڑھتے تھے «اللهم ربنا ولك الحمد» اے اللہ! ہمارے رب تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! فلاں اور فلاں کو اپنی رحمت سے دور کر دے۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل کی کہ آپ کو اس معاملہ میں کوئی اختیار نہیں ہے اللہ! ان کی توبہ قبول کر لے یا انہیں عذاب دے کہ بلاشبہ وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الکہف میں ) ارشاد اور انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے

وَقَوْلِهِ تَعَالَى: ‏‏‏‏وَلاَ تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ‏‏‏‏.

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ العنکبوت میں) «ولا تجادلوا أهل الكتاب إلا بالتي هي أحسن‏» اور تم اہل کتاب سے بحث نہ کرو لیکن اس طریقہ سے جو اچھا ہو یعنی نرمی کے ساتھ اللہ کے پیغمبروں اور اس کی کتابوں کا ادب ملحوظ رکھ کر ان سے بحث کرو۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الکہف میں ) ارشاد اور انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے

حد یث نمبر - 7347

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ . ح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَتَّابُ بْنُ بَشِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُمْ:‏‏‏‏ أَلَا تُصَلُّونَ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَلِيٌّ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ لَهُ ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيْهِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَمِعَهُ وَهُوَ مُدْبِرٌ يَضْرِبُ، ‏‏‏‏‏‏فَخِذَهُ وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلا سورة الكهف آية 54"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:‏‏‏‏ يُقَالُ مَا أَتَاكَ لَيْلًا فَهُوَ طَارِقٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ الطَّارِقُ:‏‏‏‏ النَّجْمُ، ‏‏‏‏‏‏وَالثَّاقِبُ:‏‏‏‏ الْمُضِيءُ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ:‏‏‏‏ أَثْقِبْ نَارَكَ لِلْمُوقِدِ.

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عتاب بن بشیر نے خبر دی، انہیں اسحاق ابن ابی راشد نے، انہیں زہری نے، انہیں زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور انہیں ان کے والد حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے اور فاطمہ بنت رسول اللہ علیم السلام والصلٰوۃ کے گھر ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں پس جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے تو ہم کو اٹھا دے گا۔ جوں ہی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا تو آپ پیٹھ موڑ کر واپس جانے لگے اور کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے آپ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا‏» اور انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے اگر کوئی تمہارے پاس رات میں آئے تو «طارق» کہلائے گا اور قرآن میں جو «والطارق» کا لفظ آیا ہے اس سے مراد ستارہ ہے اور «ثاقب» بمعنی چمکتا ہوا۔ عرب لوگ آگ جلانے والے سے کہتے ہیں «ثقب نارك» یعنی آگ روشن کر۔ اس سے لفظ «ثاقب» ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الکہف میں ) ارشاد اور انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے

حد یث نمبر - 7348

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَيْنَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى جِئْنَا بَيْتَ الْمِدْرَاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَادَاهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مَعْشَرَ يَهُودَ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ذَلِكَ أُرِيدُ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ذَلِكَ أُرِيدُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَهَا الثَّالِثَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَرْضِ فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ".

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ان کے والد ابوسعید کیسان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم مسجد نبوی میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ چنانچہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب ہم ان کے مدرسہ تک پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر انہیں آواز دی اور فرمایا، اے یہودیو! اسلام لاؤ تو تم سلامت رہو گے۔ اس پر یہودیوں نے کہا کہ ابوالقاسم! آپ نے اللہ کا حکم پہنچا دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ان سے فرمایا کہ یہی میرا مقصد ہے، اسلام لاؤ تو تم سلامت رہو گے۔ انہوں نے کہا ابوالقاسم! آپ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات تیسری بار کہی اور فرمایا، جان لو کہ ساری زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تمہیں اس جگہ سے باہر کر دوں۔ پس تم میں سے جو کوئی اپنی جائیداد کے بدلے میں کوئی قیمت پاتا ہو تو اسے بیچ لے ورنہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے (تم کو یہ شہر چھوڑنا ہو گا)۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور ہم نے اسی طرح تمہیں امت وسط بنا دیا ہے

وَمَا أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ، وَهُمْ أَهْلُ الْعِلْمِ.

اور اس کے متعلق کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کو لازم پکڑنے کا حکم فرمایا اور آپ کی مراد جماعت سے اہل علم کی جماعت تھی۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور ہم نے اسی طرح تمہیں امت وسط بنا دیا ہے

حد یث نمبر - 7349

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "يُجَاءُ بِنُوحٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ هَلْ بَلَّغْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ نَعَمْ يَا رَبِّ، ‏‏‏‏‏‏فَتُسْأَلُ أُمَّتُهُ هَلْ بَلَّغَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ مَا جَاءَنَا مِنْ نَذِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ شُهُودُكَ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُجَاءُ بِكُمْ فَتَشْهَدُونَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا سورة البقرة آية 143، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَدْلًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا سورة البقرة آية 143"، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَوْنٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَبِي صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.

ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوصالح (ذکوان) نے بیان کیا، ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن نوح علیہ السلام کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا، کیا تم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ عرض کریں گے کہ ہاں، اے رب! پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا کہ کیا انہوں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ نوح علیہ السلام سے پوچھے گا، تمہارے گواہ کون ہیں؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت پھر تمہیں لایا جائے گا اور تم لوگ ان کے حق میں شہادت دو گے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «‏‏‏‏وكذلك جعلناكم أمة وسطا‏» اور اسی طرح ہم نے تمہیں درمیانی امت بنایا۔ کہا کہ «وسط» بمعنی «عدل» (میانہ رو) ہے، تاکہ تم لوگوں کے لیے گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے۔ اسحاق بن منصور سے جعفر بن عون نے روایت کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے، ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حدیث بیان فرمائی۔

جب کوئی عامل یا حاکم اجتہاد کرے اور لاعلمی میں رسول کے حکم کے خلاف کر جائے تو اس کا فیصلہ نافذ نہیں ہو گا

لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ.

کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے بارے میں ہمارا کوئی فیصلہ نہیں تھا تو وہ رد ہے۔

جب کوئی عامل یا حاکم اجتہاد کرے اور لاعلمی میں رسول کے حکم کے خلاف کر جائے تو اس کا فیصلہ نافذ نہیں ہو گا

حد یث نمبر - 7350

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَخِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ ، ‏‏‏‏‏‏يُحَدِّثُ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ وَأَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَاهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"بَعَثَ أَخَا بَنِي عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيَّ وَاسْتَعْمَلَهُ عَلَى خَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدِمَ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا لَنَشْتَرِي الصَّاعَ بِالصَّاعَيْنِ مِنَ الْجَمْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا تَفْعَلُوا وَلَكِنْ مِثْلًا بِمِثْلٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ بِيعُوا هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَاشْتَرُوا بِثَمَنِهِ مِنْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَكَذَلِكَ الْمِيزَانُ".

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی ابوبکر نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے عبدالمجید بن سہیل بن عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا، وہ ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عدی الانصاری کے ایک صاحب سودا بن عزیہ کو خیبر کا عامل بنا کر بھیجا تو وہ عمدہ قسم کی کھجور وصول کر کے لائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! ہم ایسی ایک صاع کھجور دو صاع (خراب) کھجور کے بدلے خرید لیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو بلکہ (جنس کو جنس کے بدلے) برابر برابر میں خریدو، یا یوں کرو کہ ردی کھجور نقدی بیچ ڈالو پھر یہ کھجور اس کے بدلے خرید لو، اسی طرح ہر چیز کو جو تول کر بکتی ہے اس کا حکم ان ہی چیزوں کا ہے جو ناپ کر بکتی ہیں۔

جب کوئی عامل یا حاکم اجتہاد کرے اور لاعلمی میں رسول کے حکم کے خلاف کر جائے تو اس کا فیصلہ نافذ نہیں ہو گا

حد یث نمبر - 7351

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَخِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ ، ‏‏‏‏‏‏يُحَدِّثُ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ وَأَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَاهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"بَعَثَ أَخَا بَنِي عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيَّ وَاسْتَعْمَلَهُ عَلَى خَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدِمَ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا لَنَشْتَرِي الصَّاعَ بِالصَّاعَيْنِ مِنَ الْجَمْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "لَا تَفْعَلُوا وَلَكِنْ مِثْلًا بِمِثْلٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ بِيعُوا هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَاشْتَرُوا بِثَمَنِهِ مِنْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَكَذَلِكَ الْمِيزَانُ".

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے ان کے بھائی ابوبکر نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے عبدالمجید بن سہیل بن عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا، وہ ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عدی الانصاری کے ایک صاحب سودا بن عزیہ کو خیبر کا عامل بنا کر بھیجا تو وہ عمدہ قسم کی کھجور وصول کر کے لائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا خیبر کی تمام کھجوریں ایسی ہی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! ہم ایسی ایک صاع کھجور دو صاع (خراب) کھجور کے بدلے خرید لیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو بلکہ (جنس کو جنس کے بدلے) برابر برابر میں خریدو، یا یوں کرو کہ ردی کھجور نقدی بیچ ڈالو پھر یہ کھجور اس کے بدلے خرید لو، اسی طرح ہر چیز کو جو تول کر بکتی ہے اس کا حکم ان ہی چیزوں کا ہے جو ناپ کر بکتی ہیں۔

حاکم کا ثواب ، جب کہ وہ اجتہاد کرے اور صحت پر ہو یا غلطی کر جائے

حد یث نمبر - 7352

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ الْمَكِّيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ . وَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُطَّلِبِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.

ہم سے عبداللہ بن یزید مقری مکی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا، انہوں نے مجھ سے یزید بن عبداللہ بن الہاد نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن الحارث نے، ان سے بسر بن سعید نے، ان سے عمرو بن العاص کے مولیٰ ابو قیس نے، ان سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حاکم کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے اکہرا ثواب ملتا ہے (اجتہاد کا) بیان کیا کہ پھر میں نے یہ حدیث ابوبکر بن عمرو بن حزم سے بیان کی تو انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اسی طرح بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ اور عبدالعزیز بن المطلب نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح بیان فرمایا۔

اس شخص کا رد جو یہ سمجھتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام احکام ہر ایک صحابی کو معلوم رہتے تھے

وَمَا كَانَ يَغِيبُ بَعْضُهُمْ مِنْ مَشَاهِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمُورِ الْإِسْلَامِ.

اس باب میں یہ بھی بیان ہے کہ بہت سے صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے غائب رہتے تھے اور ان کو اسلام کی کئی باتوں کی خبر نہ ہوتی تھی۔

اس شخص کا رد جو یہ سمجھتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام احکام ہر ایک صحابی کو معلوم رہتے تھے

حد یث نمبر - 7353

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَطَاءٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "اسْتَأْذَنَ أَبُو مُوسَى عَلَى عُمَرَ فَكَأَنَّهُ وَجَدَهُ مَشْغُولًا، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَال عُمَرُ:‏‏‏‏ أَلَمْ أَسْمَعْ صَوْتَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ائْذَنُوا لَهُ فَدُعِيَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّا كُنَّا نُؤْمَرُ بِهَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأْتِنِي عَلَى هَذَا بِبَيِّنَةٍ أَوْ لَأَفْعَلَنَّ بِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقَ إِلَى مَجْلِسٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ لَا يَشْهَدُ إِلَّا أَصَاغِرُنَا فَقَامَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ كُنَّا نُؤْمَرُ بِهَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ خَفِيَ عَلَيَّ هَذَا مِنْ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلْهَانِي الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ".

ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے، ان سے عبید بن عمیر نے بیان کیا کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے (ملنے کی) اجازت چاہی اور یہ دیکھ کر کہ عمر رضی اللہ عنہ مشغول ہیں آپ جلدی سے واپس چلے گئے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا میں نے ابھی عبداللہ بن قیس(ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ) کی آواز نہیں سنی تھی؟ انہیں بلا لو۔ چنانچہ انہیں بلایا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا؟ (جلدی واپس ہو گئے) انہوں نے کہا کہ ہمیں حدیث میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس حدیث پر کوئی گواہ لاؤ، ورنہ میں تمہارے ساتھ یہ (سختی) کروں گا۔ چنانچہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ انصار کی ایک مجلس میں گئے انہوں نے کہا کہ اس کی گواہی ہم میں سب سے چھوٹا دے سکتا ہے۔ چنانچہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہمیں دربار نبوی سے اس کا حکم دیا جاتا تھا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم مجھے معلوم نہیں تھا، مجھے بازار کے کاموں خرید و فروخت نے اس حدیث سے غافل رکھا۔

اس شخص کا رد جو یہ سمجھتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام احکام ہر ایک صحابی کو معلوم رہتے تھے

حد یث نمبر - 7354

حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنَ الْأَعْرَجِ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكُمْ تَزْعُمُونَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الْحَدِيثَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهُ الْمَوْعِدُ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مِسْكِينًا أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الْمُهَاجِرُونَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ يَشْغَلُهُمُ الْقِيَامُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَشَهِدْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ يَبْسُطْ رِدَاءَهُ حَتَّى أَقْضِيَ مَقَالَتِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقْبِضْهُ فَلَنْ يَنْسَى شَيْئًا سَمِعَهُ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏فَبَسَطْتُ بُرْدَةً كَانَتْ عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ مَا نَسِيتُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْهُ".

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا، مجھ سے زہری نے، انہوں نے اعرج سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ تم سمجھتے ہو کہ ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات زیادہ حدیث بیان کرتے ہیں، اللہ کے حضور میں سب کو جانا ہے۔ بات یہ تھی کہ میں ایک مسکین شخص تھا اور پیٹ بھرنے کے بعد ہر وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتا تھا لیکن مہاجرین کو بازار کے کاروبار مشغول رکھتے تھے اور انصار کو اپنے مالوں کی دیکھ بھال مصروف رکھتی تھی۔ میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون اپنی چادر پھیلائے گا، یہاں تک کہ میں اپنی بات پوری کر لوں اور پھر وہ اپنی چادر سمیٹ لے اور اس کے بعد کبھی مجھ سے سنی ہوئی کوئی بات نہ بھولے۔ چنانچہ میں نے اپنی چادر جو میرے جسم پر تھی، پھیلا دی اور اس ذات کی قسم جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا تھا پھر کبھی میں آپ کی کوئی حدیث جو آپ سے سنی تھی، نہیں بھولا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات کہی جائے اور آپ اس پر انکار نہ کریں جسے تقریر کہتے ہیں تو یہ حجت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کسی کی تقریر پر حجت نہیں

حد یث نمبر - 7355

حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ حُمَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَحْلِفُ بِاللَّهِ أَنَّ ابْنَ الصَّائِدِ الدَّجَّالُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ تَحْلِفُ بِاللَّهِ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ يَحْلِفُ عَلَى ذَلِكَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُنْكِرْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".

ہم سے حماد بن حمید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن معاذ نے، کہا ہم سے ہمارے والد معاذ بن حسان نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے محمد بن المنکدر نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے محمد بن المنکدر نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ ابن صیاد کے واقعہ پر اللہ کی قسم کھاتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اللہ کی قسم کھاتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھاتے دیکھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔

دلائل شرعیہ سے احکام کا نکالا جانا اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیا ہو گی ؟

وَقَدْ أَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَ الْخَيْلِ وَغَيْرِهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سُئِلَ عَنِ الْحُمُرِ فَدَلَّهُمْ عَلَى قَوْلِهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ سورة الزلزلة آية 7 وَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الضَّبِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا آكُلُهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الضَّبُّ فَاسْتَدَلَّ ابْنُ عَبَّاسٍ بِأَنَّهُ لَيْسَ بِحَرَامٍ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے وغیرہ کے احکام بیان کئے پھر آپ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت بیان فرمائی «فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره‏» کہ جو ایک ذرہ برابر بھی بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساہنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں خود اسے نہیں کھاتا اور (دوسروں کے لیے)اسے حرام بھی نہیں قرار دیتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر ساہنہ کھایا گیا اور اس سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے استدلال کیا کہ وہ حرام نہیں ہے (یہ بھی دلالت کی مثال ہے یہ حدیث آگے آ رہی ہے)۔

دلائل شرعیہ سے احکام کا نکالا جانا اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیا ہو گی ؟

حد یث نمبر - 7356

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "الْخَيْلُ لِثَلَاثَةٍ:‏‏‏‏ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلِرَجُلٍ سِتْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى رَجُلٍ وِزْرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا الَّذِي لَهُ أَجْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَطَالَ لَهَا فِي مَرْجٍ أَوْ رَوْضَةٍ فَمَا أَصَابَتْ فِي طِيَلِهَا ذَلِكَ مِنَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ كَانَ لَهُ حَسَنَاتٍ وَلَوْ أَنَّهَا قَطَعَتْ طِيَلَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ كَانَتْ آثَارُهَا وَأَرْوَاثُهَا حَسَنَاتٍ لَهُ وَلَوْ أَنَّهَا مَرَّتْ بِنَهَرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَمْ يُرِدْ أَنْ يَسْقِيَ بِهِ كَانَ ذَلِكَ حَسَنَاتٍ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَهِيَ لِذَلِكَ الرَّجُلِ أَجْرٌ وَرَجُلٌ رَبَطَهَا تَغَنِّيًا وَتَعَفُّفًا وَلَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي رِقَابِهَا وَلَا ظُهُورِهَا فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ وَرَجُلٌ رَبَطَهَا فَخْرًا وَرِيَاءً فَهِيَ عَلَى ذَلِكَ وِزْرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحُمُرِ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ فِيهَا إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْفَاذَّةَ الْجَامِعَةَ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ‏‏‏‏ 7 ‏‏‏‏ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ‏‏‏‏ 8 ‏‏‏‏ سورة الزلزلة آية 7-8.

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ابی صالح السمان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گھوڑے تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں۔ ایک شخص کے لیے ان کا رکھنا کار ثواب ہے، دوسرے کے لیے برابر برابر نہ عذاب نہ ثواب اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے وہ اجر ہیں یہ وہ شخص ہے جس نے اسے اللہ کے راستے کے لیے باندھ کر رکھا اور اس کی رسی چراہ گاہ میں دراز کر دی تو وہ گھوڑا جتنی دور تک چراہ گاہ میں گھوم کر چرے گا وہ مالک کی نیکیوں میں ترقی کا ذریعہ ہو گا اور اگر گھوڑے نے اس دراز رسی کو بھی تڑوا لیا اور ایک یا دو دوڑ اس نے لگائی تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لیے باعث اجر و ثواب ہو گی اور اگر گھوڑا کسی نہر سے گزرا اور اس نے نہر کا پانی پی لیا، مالک نے اسے پلانے کا کوئی ارادہ نہیں کیا تھا تب بھی مالک کے لیے یہ اجر کا باعث ہو گا اور ایسا گھوڑا اپنے مالک کے لیے ثواب ہوتا ہے اور دوسرا شخص برابر برابر والا ہوتا ہے جو گھوڑے کو اظہار بے نیازی یا اپنے بچاؤ کی غرض سے باندھتا ہے اور اس کی پشت اور گردن پر اللہ کے حق کو بھی نہیں بھولتا تو یہ گھوڑا اس کے لیے نہ عذاب ہے نہ ثواب اور تیسرا وہ شخص ہے جو گھوڑے کو فخر اور ریا کے لیے باندھتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال جان ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں مجھ پر اس جامع اور نادر آیت کے سوا اور کچھ نہیں نازل فرمایا ہے«فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره * ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره‏» پس جو کوئی ایک ذرہ برابر بھی بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھے گا اور جو کوئی ایک ذرہ برابر بھی برائی کرے گا وہ اسے دیکھے گا۔

دلائل شرعیہ سے احکام کا نکالا جانا اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیا ہو گی ؟

حد یث نمبر - 7357

حَدَّثَنَا يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِيَّةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ عُقْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ النُّمَيْرِيُّ الْبَصْرِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنُ شَيْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَتْنِي أُمِّي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَيْضِ كَيْفَ تَغْتَسِلُ مِنْهُ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَأْخُذِينَ فِرْصَةً مُمَسَّكَةً، ‏‏‏‏‏‏فَتَوَضَّئِينَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَيْفَ أَتَوَضَّأُ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ تَوَضَّئِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ كَيْفَ أَتَوَضَّأُ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ تَوَضَّئِينَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَعَرَفْتُ الَّذِي يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَذَبْتُهَا إِلَيَّ فَعَلَّمْتُهَا".

ہم سے یحییٰ بن جعفر بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے منصور بن صفیہ نے، ان سے کی والدہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک خاتون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے محمد نے بیان کیا یعنی ابن عقبہ نے، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان النمیری نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور بن عبدالرحمٰن بن شیبہ نے بیان کیا، ان سے ان کی والدہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے متعلق پوچھا کہ اس سے غسل کس طرح کیا جائے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشک لگا ہوا ایک کپڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کر۔ اس عورت نے پوچھا: یا رسول اللہ! میں اس سے پاکی کس طرح حاصل کروں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے پاکی حاصل کرو۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ کس طرح پاکی حاصل کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا کہ پاکی حاصل کرو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا سمجھ گئی اور اس عورت کو میں نے اپنی طرف کھینچ لیا اور انہیں طریقہ بتایا کہ پاکی سے آپ کا مطلب یہ ہے کہ اس کپڑے کو خون کے مقاموں پر پھیر تاکہ خون کی بدبو رفع ہو جائے۔

دلائل شرعیہ سے احکام کا نکالا جانا اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیا ہو گی ؟

حد یث نمبر - 7358

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ أُمَّ حُفَيْدٍ بِنْتَ الْحَارِثِ بْنِ حَزْنٍ أَهْدَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمْنًا وَأَقِطًا وَأَضُبًّا، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَا بِهِنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأُكِلْنَ عَلَى مَائِدَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَرَكَهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَالْمُتَقَذِّرِ لَهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ كُنَّ حَرَامًا مَا أُكِلْنَ عَلَى مَائِدَتِهِ وَلَا أَمَرَ بِأَكْلِهِنَّ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ام حفید بنت حارث بن حزن رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھی اور پنیر اور بھنا ہوا سانڈا ہدیہ میں بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چیزیں قبول فرما لیں اور آپ کے دستر خوان پر انہیں کھایا گیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (سانڈے کو) ہاتھ نہیں لگایا، جیسے آپ کو پسند نہ ہو اور اگر وہ حرام ہوتا تو آپ کے دستر خوان پر نہ کھایا جاتا اور نہ آپ کھانے کے لیے کہتے۔

دلائل شرعیہ سے احکام کا نکالا جانا اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیا ہو گی ؟

حد یث نمبر - 7359

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا فَلْيَعْتَزِلْنَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ لِيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ وَإِنَّهُ أُتِيَ بِبَدْرٍ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ وَهْبٍ:‏‏‏‏ يَعْنِي:‏‏‏‏ طَبَقًا فِيهِ خَضِرَاتٌ مِنْ بُقُولٍ، ‏‏‏‏‏‏فَوَجَدَ لَهَا رِيحًا، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَ عَنْهَا ؟، ‏‏‏‏‏‏فَأُخْبِرَ بِمَا فِيهَا مِنَ الْبُقُولِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَرِّبُوهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَرَّبُوهَا إِلَى بَعْضِ أَصْحَابِهِ كَانَ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَآهُ كَرِهَ أَكْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُلْ فَإِنِّي أُنَاجِي مَنْ لَا تُنَاجِي، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ عُفَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ وَهْبٍ بِقِدْرٍ فِيهِ خَضِرَاتٌ وَلَمْ يَذْكُرِ اللَّيْثُ وَأَبُو صَفْوَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَقِصَّةَ الْقِدْرِ فَلَا أَدْرِي هُوَ مِنْ قَوْلِ الزُّهْرِيِّ أَوْ فِي الْحَدِيثِ.

ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا مجھے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے کہا کہ مجھ کو عطاء بن ابی رباح نے خبر دی، انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کچی لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے دور رہے یا (یہ فرمایا کہ) ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے (یہاں تک کہ وہ بو رفع ہو جائے)اور آپ کے پاس ایک طباق لایا گیا جس میں سبزیاں تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بو محسوس کی، پھر آپ کو اس میں رکھی ہوئی سبزیوں کے متعلق بتایا گیا تو آپ نے اپنے بعض صحابی کی طرف جو آپ کے ساتھ تھے اشارہ کر کے فرمایا کہ ان کے پاس لے جاؤ لیکن جب ان صحابی نے اسے دیکھا تو انہوں نے بھی اسے کھانا پسند نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ان سے فرمایا کہ تم کھا لو کیونکہ میں جس سے سرگوشی کرتا ہوں تم اس سے نہیں کرتے۔ (آپ کی مراد فرشتوں سے تھی) سعید بن کثیر بن عفیر نے جو امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ ہیں، عبداللہ بن وہب سے اس حدیث میں یوں روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہانڈی لائی گئی جس میں ترکاریاں تھیں اور لیث و ابوصفوان عبداللہ بن سعید اموی نے بھی اس حدیث کو یونس سے روایت کیا لیکن انہوں نے ہانڈی کا قصہ نہیں بیان کیا، اب میں نہیں جانتا کہ ہانڈی کا قصہ حدیث میں داخل ہے یا زہری نے بڑھا دیا ہے۔

دلائل شرعیہ سے احکام کا نکالا جانا اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیا ہو گی ؟

حد یث نمبر - 7360

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏ وَعَمِّي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَاهُ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏"أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَلَّمَتْهُ فِي شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَهَا بِأَمْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ لَمْ أَجِدْكَ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ"، ‏‏‏‏‏‏زَادَ لَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ كَأَنَّهَا تَعْنِي الْمَوْتَ.

مجھ سے عبیداللہ بن سعد بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد اور چچا نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے، انہیں محمد بن جبیر نے خبر دی اور انہیں ان کے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک حکم دیا۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر میں آپ کو نہ پاؤں تو پھر کیا کروں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے نہ پانا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جانا۔ حمیدی نے ابراہیم بن سعد سے یہ اضافہ کیا کہ غالباً خاتون کی مراد وفات تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ حمیدی نے اس روایت میں ابراہیم بن سعد سے اتنا بڑھایا ہے کہ آپ کو نہ پاؤں، اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کی وفات ہو جائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اہل کتاب سے دین کی کوئی بات نہ پوچھو

حد یث نمبر - 7361

وَقَالَ أَبُو الْيَمَانِ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ مُعَاوِيَةَ يُحَدِّثُ رَهْطًا مِنْ قُرَيْشٍ بِالْمَدِينَةِ وَذَكَرَ كَعْبَ الْأَحْبَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنْ كَانَ مِنْ أَصْدَقِ هَؤُلَاءِ الْمُحَدِّثِينَ الَّذِينَ يُحَدِّثُونَ عَنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَإِنْ كُنَّا مَعَ ذَلِكَ لَنَبْلُو عَلَيْهِ الْكَذِبَ.

ابوالیمان امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ نے بیان کیا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ مدینے میں قریش کی ایک جماعت سے حدیث بیان کر رہے تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کعب احبار کا ذکر کیا اور فرمایا جتنے لوگ اہل کتاب سے احادیث نقل کرتے ہیں ان سب میں کعب احبار بہت سچے تھے اور باوجود اس کے کبھی کبھی ان کی بات جھوٹ نکلتی تھی، یہ مطلب نہیں ہے کہ کعب احبار جھوٹ بولتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اہل کتاب سے دین کی کوئی بات نہ پوچھو

حد یث نمبر - 7362

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا:‏‏‏‏ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ.

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو علی بن المبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اہل کتاب توریت عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اس کی تفسیر مسلمانوں کے لیے عربی میں کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ ان کی تکذیب کرو کیونکہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہم پر نازل ہوا اور جو ہم سے پہلے تم پر نازل ہوا آخر آیت تک جو سورۃ البقرہ میں ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ اہل کتاب سے دین کی کوئی بات نہ پوچھو

حد یث نمبر - 7363

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:‏‏‏‏ "كَيْفَ تَسْأَلُونَ أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ شَيْءٍ وَكِتَابُكُمُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْدَثُ تَقْرَءُونَهُ مَحْضًا لَمْ يُشَبْ ؟ وَقَدْ حَدَّثَكُمْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ بَدَّلُوا كِتَابَ اللَّهِ وَغَيَّرُوهُ وَكَتَبُوا بِأَيْدِيهِمُ الْكِتَابَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلا سورة البقرة آية 79 أَلَا يَنْهَاكُمْ مَا جَاءَكُمْ مِنَ الْعِلْمِ عَنْ مَسْأَلَتِهِمْ ؟ لَا وَاللَّهِ مَا رَأَيْنَا مِنْهُمْ رَجُلًا يَسْأَلُكُمْ عَنِ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْكُمْ".

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ تم اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں کیوں پوچھتے ہو جب کہ تمہاری کتاب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ تازہ بھی ہے اور محفوظ بھی اور تمہیں اس نے بتا بھی دیا کہ اہل کتاب نے اپنا دین بدل ڈالا اور اللہ کی کتاب میں تبدیلی کر دی اور اسے اپنے ہاتھ سے از خود بنا کر لکھا اور کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کا تھوڑا سا مال کما لیں۔ تمہارے پاس (قرآن و حدیث کا) جو علم ہے وہ تمہیں ان سے پوچھنے سے منع کرتا ہے۔ واللہ! میں تو نہیں دیکھتا کہ اہل کتاب میں سے کوئی تم سے اس کے بارے میں پوچھتا ہو جو تم پر نازل کیا گیا ہو۔

احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 7364

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَّامِ بْنِ أَبِي مُطِيعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "اقْرَءُوا الْقُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ قُلُوبُكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُومُوا عَنْهُ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ سَمِعَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ سَلَّامًا.

ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدالرحمٰن بن مہدی نے خبر دی، انہیں سلام بن ابی مطیع نے، انہیں ابوعمران الجونی نے، ان سے جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے دل ملے رہیں قرآن پڑھو اور جب تم میں اختلاف ہو جائے تو اس سے دور ہو جاؤ۔

احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 7365

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "اقْرَءُوا الْقُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ عَلَيْهِ قُلُوبُكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُومُوا عَنْهُ"، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَارُونَ الْأَعْوَرِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جُنْدَبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدالصمد بن عبدالوارث نے خبر دی، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ بصریٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعمران جونی نے اور ان سے جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک تمہارے دلوں میں اتحاد و اتفاق ہو قرآن پڑھو اور جب اختلاف ہو جائے تو اس سے دور ہو جاؤ۔ اور یزید بن ہارون واسطی نے ہارون اعور سے بیان کیا، ان سے ابوعمران نے بیان کیا، ان سے جندب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔

احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 7366

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "لَمَّا حُضِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلُمَّ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ، ‏‏‏‏‏‏فَحَسْبُنَا كِتَابُ اللَّهِ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا، ‏‏‏‏‏‏فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَرِّبُوا يَكْتُبْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا قَالَ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغَطَ وَالِاخْتِلَافَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُومُوا عَنِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ مِنَ اخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ".

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو گھر میں بہت سے صحابہ موجود تھے، جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں مبتلا ہیں، تمہارے پاس اللہ کی کتاب ہے اور یہی ہمارے لیے کافی ہے۔ گھر کے لوگوں میں بھی اختلاف ہو گیا اور آپس میں بحث کرنے لگے۔ ان میں سے بعض نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب (لکھنے کا سامان) کر دو۔ وہ تمہارے لیے ایسی چیز لکھ دیں گے کہ اس کے بعد تم گمراہ نہیں ہو گے اور بعض نے وہی بات کہی جو عمر رضی اللہ عنہ کہہ چکے تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس لوگ اختلاف و بحث زیادہ کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ۔ عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ سب سے بھاری مصیبت تو وہ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس نوشت لکھوانے کے درمیان حائل ہوئے، یعنی جھگڑا اور شور۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے لوگوں کو منع کریں تو وہ حرام ہو گا مگر یہ کہ اس کی اباحت دلائل سے معلوم ہو جائے

وَكَذَلِكَ أَمْرُهُ نَحْوَ قَوْلِهِ حِينَ أَحَلُّوا أَصِيبُوا مِنَ النِّسَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ جَابِرٌ وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ وَلَكِنْ أَحَلَّهُنَّ لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ:‏‏‏‏ نُهِينَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَازَةِ وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا.

اسی طرح آپ جس کام کا حکم کریں۔ مثلاً جب لوگ حج سے فارغ ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ اپنی بیویوں کے پاس جاؤ۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صحابہ پر آپ نے اس کا کرنا ضروری نہیں قرار دیا بلکہ صرف اسے حلال کیا تھا۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہمیں جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا ہے لیکن حرام نہیں ہوا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے لوگوں کو منع کریں تو وہ حرام ہو گا مگر یہ کہ اس کی اباحت دلائل سے معلوم ہو جائے

حد یث نمبر - 7367

حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَطَاءٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ جَابِرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ البُرْسَانِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فِي أُنَاسٍ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "أَهْلَلْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجِّ خَالِصًا لَيْسَ مَعَهُ عُمْرَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَطَاءٌ:‏‏‏‏ قَالَ جَابِرٌ:‏‏‏‏ فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَدِمْنَا أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحِلَّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَحِلُّوا وَأَصِيبُوا مِنَ النِّسَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَطَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ جَابِرٌ:‏‏‏‏ وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ وَلَكِنْ أَحَلَّهُنَّ لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَبَلَغَهُ أَنَّا نَقُولُ:‏‏‏‏ لَمَّا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْن عَرَفَةَ إِلَّا خَمْسٌ أَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ إِلَى نِسَائِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَأْتِي عَرَفَةَ تَقْطُرُ مَذَاكِيرُنَا الْمَذْيَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَيَقُولُ جَابِرٌ بِيَدِهِ هَكَذَا وَحَرَّكَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَتْقَاكُمْ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَصْدَقُكُمْ وَأَبَرُّكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْلَا هَدْيِي لَحَلَلْتُ كَمَا تَحِلُّونَ، ‏‏‏‏‏‏فَحِلُّوا، ‏‏‏‏‏‏فَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا أَهْدَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَحَلَلْنَا وَسَمِعْنَا وَأَطَعْنَا".

ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاء نے بیان کیا، ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے (دوسری سند) امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ محمد بن بکر برقی نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عطاء نے خبر دی، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، اس وقت اور لوگ بھی ان کے ساتھ تھے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خالص حج کا احرام باندھا اس کے ساتھ عمرہ کا نہیں باندھا۔ عطاء نے بیان کیا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 4 ذی الحجہ کی صبح کو آئے اور جب ہم بھی حاضر ہوئے تو آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حلال ہو جاؤ اور اپنی بیویوں کے پاس جاؤ۔ عطاء نے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ ان پر یہ ضروری نہیں قرار دیا بلکہ صرف حلال کیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ ہم میں یہ بات ہو رہی ہے کہ عرفہ پہنچنے میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں اور پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی عورتوں کے پاس جانے کا حکم دیا ہے، کیا ہم عرفات اس حالت میں جائیں کہ مذی یا منی ہمارے ذکر سے ٹپک رہی ہو۔ عطاء نے کہا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اس طرح مذی ٹپک رہی ہو، اس کو ہلایا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا، تمہیں معلوم ہے کہ میں تم میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں، تم میں سب سے زیادہ سچا ہوں اور سب سے زیادہ نیک ہوں اور اگر میرے پاس ہدی (قربانی کا جانور) نہ ہوتا تو میں بھی حلال ہو جاتا، پس تم بھی حلال ہو جاؤ۔ اگر مجھے وہ بات پہلے سے معلوم ہو جاتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا۔ چنانچہ ہم حلال ہو گئے اور ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی اور آپ کی اطاعت کی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے لوگوں کو منع کریں تو وہ حرام ہو گا مگر یہ کہ اس کی اباحت دلائل سے معلوم ہو جائے

حد یث نمبر - 7368

حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحُسَيْنِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "صَلُّوا قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فِي الثَّالِثَةِ لِمَنْ شَاءَ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سُنَّةً".

ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے حسین بن ذکوان معلم نے، ان سے عبیداللہ بن بریدہ نے، کہا مجھ سے عبداللہ بن مغفل مزنی نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مغرب کی نماز سے پہلے بھی نماز پڑھو اور تیسری مرتبہ میں فرمایا کہ جس کا جی چاہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند نہیں کرتے تھے کہ اسے لوگ لازمی سنت بنا لیں۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ شوریٰ میں ) فرمانا مسلمانوں کا کام آپس کے صلاح اور مشورے سے چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ آل عمران میں ) فرمان اے پیغمبر ! ان سے کاموں میں مشورہ لے

وَأَنَّ الْمُشَاوَرَةَ قَبْلَ الْعَزْمِ وَالتَّبَيُّنِ، ‏‏‏‏‏‏لِقَوْلِهِ:‏‏‏‏ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ سورة آل عمران آية 159، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا عَزَمَ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ لِبَشَرٍ التَّقَدُّمُ عَلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَشَاوَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ يَوْمَ أُحُدٍ فِي الْمُقَامِ وَالْخُرُوجِ فَرَأَوْا لَهُ الْخُرُوجَ فَلَمَّا لَبِسَ لَأْمَتَهُ وَعَزَمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ أَقِمْ فَلَمْ يَمِلْ إِلَيْهِمْ بَعْدَ الْعَزْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ يَلْبَسُ لَأْمَتَهُ فَيَضَعُهَا حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ وَشَاوَرَ عَلِيًّا، ‏‏‏‏‏‏وَأُسَامَةَ فِيمَا رَمَى بِهِ أَهْلُ الْإِفْكِ عَائِشَةَ فَسَمِعَ مِنْهُمَا حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ فَجَلَدَ الرَّامِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَى تَنَازُعِهِمْ وَلَكِنْ حَكَمَ بِمَا أَمَرَهُ اللَّهُ وَكَانَتِ الْأَئِمَّةُ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَشِيرُونَ الْأُمَنَاءَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْأُمُورِ الْمُبَاحَةِ لِيَأْخُذُوا بِأَسْهَلِهَا فَإِذَا وَضَحَ الْكِتَابُ أَوِ السُّنَّةُ لَمْ يَتَعَدَّوْهُ إِلَى غَيْرِهِ اقْتِدَاءً بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَى أَبُو بَكْرٍ قِتَالَ مَنْ مَنَعَ الزَّكَاةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا قَالُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ مَا جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَابَعَهُ بَعْدُ عُمَرُ فَلَمْ يَلْتَفِتْ أَبُو بَكْرٍ إِلَى مَشُورَةٍ إِذْ كَانَ عِنْدَهُ حُكْمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الَّذِينَ فَرَّقُوا بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَأَرَادُوا تَبْدِيلَ الدِّينِ وَأَحْكَامِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ وَكَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَشُورَةِ عُمَرَ كُهُولًا كَانُوا أَوْ شُبَّانًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.

اور یہ بھی بیان ہے کہ مشورہ ایک کام کا مصمم عزم اور اس کے بیان کر دینے سے پہلے لینا چاہئیے جیسے فرمایا «فإذا عزمت فتوكل على الله‏» پھر جب ایک بات ٹھہرا لے (یعنی صلاح و مشورہ کے بعد) تو اللہ پر بھروسہ کر (اس کو کر گزر) پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشورے کے بعد ایک کام ٹھہرا لیں اب کسی آدمی کو اللہ اور اس کے رسول کے آگے بڑھنا درست نہیں (یعنی دوسری رائے دینا)اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں اپنے اصحاب سے مشورہ لیا کہ مدینہ ہی میں رہ کر لڑیں یا باہر نکل کر۔ جب آپ نے زرہ پہن لی اور باہر نکل کر لڑنا ٹھہرا لیا، اب بعض لوگ کہنے لگے مدینہ ہی میں رہنا اچھا ہے۔ آپ نے ان کے قول کی طرف التفاف نہیں کیا کیونکہ (مشورے کے بعد) آپ ایک بات ٹھہرا چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب پیغمبر (لڑائی پر مستعد ہو کر)اپنی زرہ پہن لے (ہتھیار وغیرہ باندھ کر لیس ہو جائے) اب بغیر اللہ کے حکم کے اس کو اتار نہیں سکتا (اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وصل کیا)۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مشورہ کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو بہتان لگایا گیا تھا اس مقدمہ میں، اور ان کی رائے سنی یہاں تک کہ قرآن اترا اور آپ نے تہمت لگانے والوں کو کوڑے مارے اور علی اور اسامہ رضی اللہ عنہما میں جو اختلاف رائے تھا اس پر کچھ التفات نہیں کیا (علی رضی اللہ عنہ کی رائے اوپر گزری ہے)بلکہ آپ نے اللہ کے ارشاد کے موافق حکم دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جتنے امام اور خلیفہ ہوئے وہ ایماندار لوگوں سے اور عالموں سے مباح کاموں میں مشورہ لیا کرتے تاکہ جو کام آسان ہو اس کو اختیار کریں پھر جب ان کو قرآن اور حدیث کا حکم مل جاتا تو اس کے خلاف کسی کی نہ سنتے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سب پر مقدم ہے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے جو زکوٰۃ نہیں دیتے تھے لڑنا مناسب سمجھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تم ان لوگوں سے کیسے لڑو گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ مجھ کو لوگوں سے لڑنے کا حکم ہوا یہاں تک کہ وہ لا الہٰ الا اللہ کہیں جب انہوں نے لا الہٰ الا اللہ کہہ لیا تو اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے بچا لیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا، میں تو ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو ان فرضوں کو جدا کریں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یکساں رکھا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی وہی رائے ہو گئی، غرض ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر کچھ التفاف نہ کیا ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود تھا جو لوگ نماز اور زکوۃٰ میں فرق کریں، دین کے احکام اور ارکان کو بدل ڈالیں ان سے لڑنا چاہئیے (وہ کافر ہو گئے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنا دین بدل ڈالے (اسلام سے پھر جائے) اس کو مار ڈالو اور عمر رضی اللہ عنہ کے مشورے میں وہی صحابہ شریک رہتے جو قرآن کے قاری تھے (یعنی عالم لوگ) جوان ہوں یا بوڑھے اور عمر رضی اللہ عنہ جہاں اللہ کی کتاب کا کوئی حکم سنتے بس ٹھہر جاتے اس کے موافق عمل کرتے اس کے خلاف کسی کا مشورہ نہ سنتے۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ شوریٰ میں ) فرمانا مسلمانوں کا کام آپس کے صلاح اور مشورے سے چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ آل عمران میں ) فرمان اے پیغمبر ! ان سے کاموں میں مشورہ لے

حد یث نمبر - 7369

حَدَّثَنَا الْأُوَيْسِيُّ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عُرْوَةُ ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ الْمُسَيَّبِ ، ‏‏‏‏‏‏ وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ ، ‏‏‏‏‏‏ وَعُبَيْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏حِينَ قَال لَهَا أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْأَلُهُمَا وَهُوَ يَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا أُسَامَةُ فَأَشَارَ بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ وَأَمَّا عَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَمْ يُضَيِّقْ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ وَسَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَيْءٍ يَرِيبُكِ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ أَمْرًا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَتَأْتِي الدَّاجِنُ، ‏‏‏‏‏‏فَتَأْكُلُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ بَرَاءَةَ عَائِشَةَ"، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ .

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، کہا کہ مجھ سے عروہ بن مسیب اور علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بلایا کیونکہ اس معاملہ میں وحی اس وقت تک نہیں آئی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہل خانہ کو جدا کرنے کے سلسلہ میں ان سے مشورہ لینا چاہتے تھے تو اسامہ رضی اللہ عنہ نے وہی مشورہ دیا جو انہیں معلوم تھا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل خانہ کی برات کا لیکن علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی پابندی تو عائد نہیں کی ہے اور اس کے سوا اور بہت سی عورتیں ہیں، باندی سے آپ دریافت فرما لیں، وہ آپ سے صحیح بات بتا دے گی۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے شبہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھ کر بھی سو جاتی ہیں اور پڑوس کی بکری آ کر اسے کھا جاتی ہے، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا، اے مسلمانو! میرے معاملے میں اس سے کون نمٹے گا جس کی اذیتیں اب میرے اہل خانہ تک پہنچ گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں نے ان کے بارے میں بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں جانا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی کا قصہ بیان کیا اور ابواسامہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا۔

اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ شوریٰ میں ) فرمانا مسلمانوں کا کام آپس کے صلاح اور مشورے سے چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ آل عمران میں ) فرمان اے پیغمبر ! ان سے کاموں میں مشورہ لے

حد یث نمبر - 7370

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَكَرِيَّاءَ الْغَسَّانِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"خَطَبَ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمِدَ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مَا تُشِيرُونَ عَلَيَّ فِي قَوْمٍ يَسُبُّونَ أَهْلِي مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِمْ مِنْ سُوءٍ قَطُّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا أُخْبِرَتْ عَائِشَةُ بِالْأَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَنْطَلِقَ إِلَى أَهْلِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَذِنَ لَهَا وَأَرْسَلَ مَعَهَا الْغُلَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ:‏‏‏‏ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ.

ہم سے محمد بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن زکریا نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطاب کیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا تم مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دیتے ہو جو میرے اہل خانہ کو بدنام کرتے ہیں حالانکہ ان کے بارے میں مجھے کوئی بری بات کبھی نہیں معلوم ہوئی۔ عروہ سے روایت ہے، انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جب اس واقعہ کا علم ہوا (کہ کچھ لوگ انہیں بدنام کر رہے ہیں) تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! کیا مجھے آپ اپنے والد کے گھر جانے کی اجازت دیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی اور ان کے ساتھ غلام کو بھیجا۔ انصار میں سے ایک صاحب ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہا«سبحانك ما يكون لنا أن نتكلم بهذا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سبحانك هذا بهتان عظيم‏.‏» تیری ذات پاک ہے، اے اللہ! ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم اس طرح کی باتیں کریں تیری ذات پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے۔